يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں (١) اور ان کے لئے تمہارے اندر سختی ہونی چاہیے (٢) اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
ف ٦۔ یعنی کفار میں سے جو لوگ تم سے جتنا زیادہ قریب ہیں اتنا ہی ان سے پہلے جہاد کرو۔ پھر ان سے جہاد کرو جو اُ ن کی بہ نسبت دور ہیں۔ چنانچہ اسی ترتیب کے ساتھ نبیﷺ نے پہلے اپنے خاص قبیلہ قریش سے جنگ کی پھر جزیرہ عرب کے دوسرے قبائل سے اور پھی بنی قریظہ بنی نضیر سے اور پھر خیبر اور فدک کے اہل کتاب سے جو مدینہ کے اردگرد تھے۔ جب ان سب سے فارغ ہوئے تو غزوۂ تبوک کی مہم پر ملک شام کے عیسائیوں سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے۔ یہی ترتیب آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض)، حضرت عمر فاروق (رض)، شہید محراب (رض) اور دوسرے خلفائے ملحوظ رکھی۔ چنانچہ ان کے زمانے میں پہلے ملک شام فتح کیا گیا اور اس کے بعد ایران اور مصر پر حملہ کیا گیا۔ اس طرح مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرانیلگا۔ (ابن کثیر)۔ ف ٧۔ اس لئے کہ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے نرم اور کافر دشمن کے لئے سخت ہوجیسا کہ دوسری آیت میں صحابہ کرام (رض) کی یہ خوبی بتائی گئی کہ وہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ” کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل“ ہیں اور مومنین کی صفت میں فرمایا : اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین۔ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت“ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انا الضحون القتال میں (اپنے ساتھیوں کے ساتھ) بہت ہنس مکھ اور (کافروں کو) بہت قتل کرنے والو ہوں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے کافروں سے جنگ کرو گے تو تہ تمہارے ساتھ ہوگا تمہیں کوئی طاقت زک نہیں پہنچا سکے گی۔ (ابن کثیر)۔