سورة البقرة - آیت 127

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 : اس آیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ ہے۔ اس کی تعمیر پر مختلف ادوار گزر چکے ہیں۔ آیت سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر اس کی تعمیر کی بعض مفسرین نے بیت اللہ (کعبہ) کی قدامت ثابت کرنے کے لیے اس کوآدم (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا قرار دیا ہے بلکہ یہاں تک کہ منھامدت الا رض اور یہ کہ خانہ کعبہ آسمان سے نازل ہوا، طوفان نوح کے وقت دوبارہ آسمان پر آٹھا لیا گیا۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد جملہ انبیاء اس کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ عرفہ کے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) کا تعارف ہوا اور جدہ میں حضرت ام حوا (علیہا السلام) کی قبر ہے وغیرہ اسی طرح حجراسود کے متعلق بھی عجیب وغریب حکایات نقل کردی ہیں مگر کعبہ کا شرف تو محض اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ قرار دیا ہے ورنہ وہ بھی ایک عمارت ہے جو مکہ کی پہاڑیوں کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام جسم ولباس میں ہمارے جیسے بشر ہوتے ہیں مگر شرف نبوت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے افضل اور ممتاز ہوجاتے ہیں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حجر اسود کا استلام کرتے وقت فرمایا: میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے جس میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے میں صرف اس لیے ا ستلام کرتا ہوں کہ رسول (ﷺ) کو تیرا استلام کرتے دیکھا ہے۔ اب لوگوں نے کعبہ حجراسود اور غلاف کعبہ کے متعلق مختلف قسم کی رسوم و بدعات اختیار کر رکھی ہیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (المنار) جاہلیت میں جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو آنحضرت (ﷺ) کی عمر مبارک 35 سال تھی۔ قریش کے نزاع پر آنحضرت (ﷺ) نے حجر اسود کو اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے رکھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیت اللہ دوبارہ تعمیر کیا اس کے بعد عبدالملک کے دور خلافت میں حجاز نے اس کی از سرنو تعمیر کی اور جاہلی طرز پر بنا دیا۔ حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں ایک حبشی خانہ کعبہ کو ویران کرے گا۔ (ابن کثیر )