سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے (١) ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے (٢) ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے (٣) پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 پہلے منافقین اعراب (بدویوں) کا ذکر فرمایا پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد مہاجرین و انصار کو خوش خبری دی اور انکے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا۔ اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کا تذکرہ شروع کیا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے ہیں کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اپنی فراست نافذہ اور قوت حدس کے ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکتے گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے پہچانتے ہوں۔ (دیکھیے سورۃ محمد آیت 30) لہذا جن روایات میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حضرت حذیفہ کو بتا دئیے تھے وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہاں کلی طور پر سب کو جاننے کی نفی ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر 9 ف 5۔ ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے۔ یحسبون کل صیحۃ علیہم۔ کہ وہ ہر لمحہ اپنے تئیں خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر رسوئی بھی جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور مرنے کے بعد قبر کا عذاب۔ اسی کو دوسرا عذاب فرمایا۔ (کبیر) ف 6۔ یعنی دوزخ کا عذاب۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : مرتین، یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پاویں گے پھر آخرت میں پکڑے جاویں گے۔ (از موضح)