سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے (١

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 یعنی معذور ہیں جیسے لنگڑے، لولے، اپاہج۔ اند ھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے۔ ف 7 جس سے جہاد کی تیاری کرسکیں اور ہتھیار سواری وغیرہ فراہم کرسکیں۔ ف 8 وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے انہیں نقصان اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا(الدِّينُ ‌النَّصِيحَةُ)۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کس کے لیے فرمایا : (لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ)۔ یعنی اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول (ﷺ) کے لیے مسلمانوں کے امام کے لیے اور مسلم عوام کے لیے ( شوکانی) عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدین جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں بیٹھے رہیں۔ نہ جھوٹی خبریں پھیلائیں نہ فساد بر پاکریں مجاہدین کی خدمت کریں اور ان کے بال بچوں کی خبر گیری کریں۔ ( از وحیدی) ف 9 یعنی یہ لوگ معذور ہیں۔ اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناه نہیں ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے نبی (ﷺ) نے تبوک کے سفر میں صحابہ کرام سے فرمایا تم اپنے پیچھے مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو کہ تم نے جو مسافت طے کی جو مال خرچ کیا ہے اور جس وادی کو پار کیا ہے۔ ان سب اعمال میں وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (ﷺ) وہ ہمارے ساتھ کیسے هونگے حالانکہ وہ تو مدینہ میں رہ گئے ہیں ؟ فرمایا انہیں صرف عذر نے تمہارے ساتھ آنے سے روک دیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ مگر وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ( ابن کثیر بحوالہ صحیحین)