وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ
ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں (١) اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے (٢)۔
ف 10 یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ صدقات کی تقسیم میں وہ پیغمبر ( علیہ السلام) پر عیب لگانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ حضرت الشیخ فرماتے ہیں یعنی منجملہ دوسرے اسباب طعن کے ایک سبب یہ بھی تھا نہ کہ صرف یہی ایک سبب تھا بلکہ کئ وجوہ سے طعن کرتے تھے، ( کبیر) چنانچہ آپ(ﷺ) صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھئے کیسی خویش پر وری اور دوست نوازی ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہوتا کہ ہمیں کیوں نہیں ملتا۔( ابن کثیر ) ف 1 حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کچھ مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص مقداد بن خویصرہ تمیمی ( حرقوص بن دمیر) آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! انصاف سے کام لیجئے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا :ارے افسوس! اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو اور کون لے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) اگر آپ اجازت دیں میں اس کا سر قلم کر ڈالوں۔ فرمایا : جانے دو اس لیے کہ اس کی نسل سے ایسے پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپنی نماز روزے کو حقیر محسوس کرو مگر یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل سے جائے اور اس کے ساتھ خون وغیرہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) بعض روا یات میں ہے کہ ابو الجو اظ منا فق نے بھی اسی قسم کا اعتراض کیا۔ اس پر آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا اس سے اور اس کے ساتھیوں سے محتاط رہو کہ یہ منا فق ہیں۔ ( کبیر )