مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں (١) ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں (٢)۔
ف 1 یا ایسے کام کرتے ہیں جن سے ان کا مشرک ہونا صاف معلوم ہوجاتا ہو۔ جیسے بتوں یا قبروں یا ستاروں کی پوجا کرنا یا زبان ایسی باتیں نکالتے ہوں جو صریحا شرک ہیں جیسے قریش جب تلبیہ کرتے تو یوں کہتے : لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک ( اللہ ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں، مگر وہ شریک کا تو مالک ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ ( وحیدی) مطلب یہ ہے کہ مسجدیں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اراسی کی عبادت کے لیے بنی ہیں مشرکین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں آباد رکھیں ج اور ان کے متولی یا خادم بن کر ان پر اجارہ داری قائم کریں، یہ حکم اگرچہ تمام مساجد کے متعلق ہے مگر یہاں مسجد حرام مراد ہے جو اس وقت مشرکین کے قبضہ میں تھی۔ یعنی مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس پر سے ان کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔ ف 2 یعنی انہوں نے اگر کچھ نیک کام کئے بھی ہیں جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔ ( ابن کثیر )