أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم سمجھ بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے (١) حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں (٢) اور جنہوں نے اللہ کے اور رسول کے اور مومنوں کے سوا کسی کو ولی دوست نہیں بنایا (٣) اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو (٤)۔
ف 8 یعنی انتائی محبوب اور دوست، اس شرط کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ جہاد تو منافق بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر یہ جہاد مقبول نہیں ہوتا تا وقتیکہ ظاہر وہ باطن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیر خواہی نہ ہو۔ ( ابن کثیر) ف 9 مطلب یہ ہے کہ تمہیں یقینا آزمائش کی بھٹی سے گزار کر رہے گا تاکہ پتہ چل جائے کہ تم میں وقعہ کون سچا اور مخلص تھا اور کون جھوٹا اور منا فق اشارہ ہے اس طرف کہ جہاد کی مشرو عیت کی ایک حکمت مومنین ثابت قدمی کو جا نچنا بھی ہے، یہ معنی نہیں ہیں کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، ( نیز دیکھئے سوہ عنکبوت آیت 1۔3 و آل عمران آیت 179)