وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے (١) وہ غالب حکمتوں والا ہے۔
ف 10 یہ اس بھائی چارے اور الفت کی طرف اشارہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کر کے انہیں ایک مظبوط جبتھے کی شکل دے دی تھی حالانکہ عرب مختلف قبائل میں منقسم تھے، اور آئے دن معمولی معمولی باتوں پر ان کے درمیان ایسی ایسی جنگیں چھڑتی رہئی تھیں جن کا سلسلہ بر سوں بلکہ بعض اوقات صدیوں تک ختم نہ ہوتا تھا۔ ایسی ایک قوم کو ملاکر شیر و شکر کردینا اور چند بر سوں میں تمام جاہلی عصبیتوں کو مٹاکر دینا یقینا انسانی طاقت سے باہر اور دوسرا سرا للہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم تھا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے یہ احسان جتلایا کہ جب ہماری تائید و نصرت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح تقویت پہنچائی تو آئندہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مدد گانہیں چھوڑیں گے۔ احادیث میں باہمی الفت ومحبت کی بہت فضیلت آئی ہے۔ ( از ابن کثیر )