وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی (١) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
ف 3 یعن تمہیں دشمن کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور ضرورت اور زمانہ کے حالات کے مطابق جس قدر اسلحہ حرب اور مسلح افواج تم بہم پہنچا سکتے وہ بہم پہنچانے کی کو شش کرنی چاہئے۔ (کذافی الکبیر و ابن کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں کہ ترھبو ن بہ فرمایا تاکہ سمجھ لیں کہ فتح کا نحصار صرف اسباب پر نہیں اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی نصرت وامداد پر ہے ( موضح) ف 4 جن کے دلوں کا حال تم نہیں جانتے لیکن وہ ہر آن موقع کی تلاش میں ہیں کہ کبھی تمہیں کمزور پائیں تو حملہ کردیں یا تمہارے کھلم دشمنوں سے مل جائی ایسے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودی اور منا فق تھے۔ ف 5 یعنی تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور معمولی سے معمولی خرچ کو بھی رائیگاں نہ جانے دیا جائے گا ارویہ جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک نیکی دس گنے سے ساتھ سو گنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھتی ہے تو اس کا مدار حسن نیت پر ہے۔