ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی (١) اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
ف 3 یعنی اعتقاد اور نیت جب تک بہ بد لے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت چھینی نہیں جاتی۔ ( مو ضح) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی عطا کردہ نعمت سے بایں صوت محروم کرتا ہے جب وہ اپنے عقائد واعمال اور اخلاق کو بد ل کر اپنے آپ کو اس نعمت کا قطع غیر مستحق ثابت کردیتی ہے۔ مثلا ایمان کی بجائے کفر شکر کی بجائے ناشکری اور نیکی کی بجائے گناہ کرنے لگتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس لے لیتا ہے اور اسے مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ فرعون کی قوم اور اسی طرح قریش کو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان و شوکت اور خو شحالی سے نوا زا تھا لیکن ان سے اپنی نعمتیں چھینن لیں۔ اس زمانے میں مسلمان جو ساری دنیا میں ذلت، غلامی اور دوسروں کی حاشیر برداری کی زندی گی بسر کر ہے ہیں وہ بھی ان کی اپنی بد اعمالیوں کی سزا ہے ورنہ یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ ایک قوم کتاب اللہ اور سنت رسول ( علیہ السلام) پر ایمان رکتھی ہو پھر بھی دنیا میں ذلیل وخوار رہے ( از وحیدی) ف 4 اس کے بندے جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ویسا ہی وہ انہیں بدلہ دیتا ہے ( وحیدی بتغیر)