سورة الانفال - آیت 44

وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھایا (١) تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا (٢) اور سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 12 یہ اس وقت کی کیفیت ہے جب جنگ ہونے والی تھی لیکن وہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ کافر مسلمانوں کو تھوڑے نظر آتے حتی کہ بعض نے خیال کیا کہ وہ ستر سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب کی بھی تائید ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کو ہمت بڑھ جائے نیزکفار زیادہ تیاری کی ضرورت نہ سمجھیں مگر جب جنگ شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی جیسا کہ سورۃ آل عمران میں فرمایا، یر ونھم مثلیھم رای العین : ( وہ بظاہر ان کے اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے، ( اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ شروع ہونے پر کافروں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ جلدی ہی شکست کھا کر پیچھے کی طرف بھا گنے لگے اور اور مسلمانوں کے حوصلے بر ستور بڑھتے رہے۔۔ ف 13 یعنی وہی اسلام کی فتح اور کفر کی شکست ہو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی پر معجزانہ دلیل قائم ہوجائے۔ (کبیر ) ف 1 یعنی وہی جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا۔ اور پھر جب اصل اختیار ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسی کو اپنا مقصود بنائے۔ جک