يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں (١) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے (٢) اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔
ف 3 یعنی خدا اور اس کے رسول (ﷺ) کی دعوت پر لبیک کہنا تم پر لازم ہے لِمَا يُحۡيِيكُمۡ ( وہ کام جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔) میں علمائے سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ بعض نے ایمان واسلام اور بعض نے قرآن لیکن اکثر نے اس سے جہاد مرد لیا ہے کیونکہ جہاد دنیا و آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پھر سیاق کلام کے مناسب بھی یہی ہے لیکن اگر اس سے مراد حق وصواب لیا جائے تو قرآن، ایمان، جہاد اور برو طاعت کے جملہ امور کویہ لفظ شامل ہوجاتا ہے۔ مو لانا علامہ لکھتے ہیں اس آیت سے تقلید ناجائز کی جڑ کٹ گئی جب اللہ کا حکم یہ ہے کہ رسول (ﷺ) کا کہا مانو تو کیونکر یہ درست ہوسکتا ہے کہ رسول (ﷺ) کے حکم کی موجودگی میں دوسرے مجتہد یا امام کی بات پر عمل کیا جائے، دوسرے ائمہ تو آنحضرت (ﷺ) کفش بر دار هیں جب آنحضرت (ﷺ) كا حكم معلوم هو جائے تو تابعداروں كی بات سننا اور آنحضرت(ﷺ)کا کہا نہ ماننا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، ( مختصر از وحیدی) ف 4 یعنی حق وا ضح ہوجا نے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ و رسول (ﷺ) کا کہا نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کو یہ سزا ملتی ہے کہ وه انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اللہ و رسول (ﷺ) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق نهیں ملتی جیسے فرمایا İ فَلَمَّا زَاغُوٓاْ أَزَاغَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُمۡĬ یعنی وہ خود ٹیٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ ( صف 5) آیت کے یہ معنی حضرت ابن عباس (رض) اورجمہور مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ( ابن کثیر) ابن قیم (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے دل کے قریب ہے اس لیے وہ انسان کے دل کے حالات سے خوب واقف ہے اسے خوب معلوم ہے کہ تم اللہ و رسول (ﷺ) کی دعوت پر اخلاص سے لبیک کہہ رہے ہو یا کسی دوسرے جذبه سے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں میں اخلاص پیدا کرو، ( الفوائد) شاہ صاحب (رح) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( از مو ضح) امام رازی فرماتے ہیں اللہ کا حائل ہونا موت سے کنا یہ ہے کہ یعنی موت آنے سے قبل نیکی اور اطاعت بجالا ؤ۔، اس کے بعد وَأَنَّهُۥٓ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ کے جملہ سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ( رازی )