سورة الانفال - آیت 17

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ (١) اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی (٢) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے (٣) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 ورنہ خود مسلمانوں کی نہ تعداد زیادہ تھی، اور نہ ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ ہو کافروں کے ہر طرح کی مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے الہذا ان کا چاہیے کہ کسی بات میں پنا دخل نہ کر کریں ( از موضح) ف 5 یہ اشارہ ہے اس وقعہ کو طرف بد ر کے روز جب معرکہ قتال گرم تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹھی بھر سکنگ ریزے ہاتھ میں کر شاھت الوجو جہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھنکنے جو ان میں ہر ایک لگے اور اس کی اآنکھوں اور نتھوں میں داخل ہوگئے، اکثر مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں ر میٰ سے مراد یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مٹھی بھر کنکر یاں پھنکنا ہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 باوجود یکہ ان کا سامنا اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہ رکھتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی تاکہ وہ اس کی نعمت کو پہچانیں اور اس کا ششرک بجا لائیں۔ ( کذافی ابن جریر )