فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
سو جب اللہ نے دونوں کو صحیح سلامت اولاد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے (١) سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے۔
ف 8 شرک یہ تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث رکھا ( حارث ابلیس کا نام تھا جس سے وہ گروہ ملا ئکہ میں مشہور تھا ،)،۔ یہ تشریح جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور کی بنیاد حضرت سمر ه(رض) کی ترمذی اور حاکم میں یہ روایت ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا۔ جب حوا ( علیھا السلام) نے بچہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑ کا زندہ نہ رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا اس کا نام عبد الحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے بچہ کا نام عبدالحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا لیکن حافظ ابن کثیر اور بعض دوسرے محقق مفسرین نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ما خو ذ قرار دیا ہے خصو صا جب کہ اس میں انبیا ( علیہ السلام) سے شرک جیسے گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس کے بجائے انہوں نے امام حسن بصری (رح) کی اس تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ لِيَسۡكُنَ إِلَيۡهَاۖ تک تو حضرت آدم و حوا( علیہما السلام )کا قصہ ہے لیکن اس کے بعد فَلَمَّا تَغَشَّىٰهَا سے عام لوگوں خصوصامشرکین عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ امام حسن بصری وغیرہ کا کہنا یہ ہے کہ مگر اس کے بعد سلسلئہ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور اس کے نظائر قرآن میں مو جود ہیں جن میں فرد کے ذکر سے سلسلئہ کلام جنس کی طرف منقتل ہوگیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میںİ فَتَعَٰلَى ٱللَّهُ عَمَّا يُشۡرِكُونَĬ وغیرہ آیات میں جمع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ جنس آدم مراد ہے، اگر یہ سارہ قصہ آدم اور حوا ( علیہما السلام) کے متعلق ہی تسلیم کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جَعَلَا لَهُۥ شُرَكَآءَ میں استفہام انکاری ہے کہ کیا آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے شرک کیا تھا؟۔ جیساکہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں یعنی نہیں کیا، اس تاویل سے بھی شرک کی نسبت والا اعتراض دفع ہوسکتا ہے ( ابن کثیر۔ (رازی) ف 9 یعنی کفار قریش کر شرک سے يُشۡرِكُونَ بصیغہ جمع ہے لہذا اس سے بالا تفاق مشر کین عرب مراد ہیں جیسا کہ مابعد والی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ ( رازی )