أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ
اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو (١) پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے (٢)
ف 10 یعنی دلائل گونیہ میں غور و فکر سے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کا اثبات ہوسکتا ہے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی توحید دے رہے ہیں وہی توحید آیات کو نیہ سے ثابت ہورہی ہے، امام رازی فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ امر نبوت توحید کی فرع ہے ورنہ ان انا الا نذیر مبین کے دعویٰ کے بعد الم یتفکروا الخ کی تقریر بے ربط ہو کر رہ جائے گی۔ ( کبیر ) ف 11 یعنی موت کا مقررہ وقت تو کسی کو معلوم نہیں۔ انسان کم از کم نیکی کی طرف راغب ہوجا نا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑ قر یب ہو مگر یہ بد بخت اتنا بھی نہیں سمجھتے (کذافی الو حیدی) ف 12 یا قرآن حکیم سے کوئی بہتر نصیحت اور کسی کتاب میں ہوگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر کوئی سمجھانے والا ہوگا جس کی باتوں پر یہ ایمان لائینگے ( از وحیدی )