مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (١)
ف 2: نسخ کے معنی کسی چیز کو نقل کرنے کے ہیں اور اصطلاح علماء میں ایک حکم شرعی کو دوسری دلیل شرعی سے مو قوف کردینے کو نسخ کہا جاتا ہے قرآن میں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت تبدیل کردینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (دیکھئے النحل آیت 101) نسخ کی دو صورتیں ہیں صرف نسخ حکم یا مع تلاوت جمہور علماء نے یہاں نسخ کی یہی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ اس آیت میں یہود کی تردید ہے جو تورات کو ناقابل نسخ مانتے تھے اس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی کہ وہ توریت کے بعض احکام کو منسوخ قرار دیتےہیں۔اور قرآن پر بھی یہ اعتراض کیا کہ اس میں ناسخ منسوخ ہیں۔لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہوسکتا قرآن نے ان کے جواب میں فرمایا کسی حکم کو موقوف قرار دے دینا کوئی عییب کی بات نہیں ہے۔ اللہ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے اور خلق وامر اسی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مخلوق اور احکام شریعت میں تصرف کرسکتا ہے یعنی نسخ بھی منجملہ مقدورات الہیہ کے ہے لہذا اس کا انکار قدرت کے انکار کے مترادف ہے ۔احکام کی تشریع مصالح عبادکے لیے ہےاور ان کا موقوف کردینا بھی مبنی بر مصلحت ہے۔ اگر کوئی حکم موقوف کردیا جاتا ہے یا اس کی تنزیل مؤخر کردی جاتی ہے تو اس کی بجائے بہتر یا اسی جیسا دوسرا حکم اتار دیا جاتا ہے۔ (المنار سلفیہ بتصرف) واضح رہے نسخ بہر دو صورت قرآن و حدیث میں مو جود ہے سلف اس پر متفق ہیں۔ سب سے پہلے ایک بد عتی فرقہ کے ایک سر کردہ عالم ابو مسلم اصفہانی (محمد بن بحر المتو فی 323 ھ) المعتزلی نے اس کا انکار کیا ہے اور علماء نے اس کی تردید کی ہے۔ (ترجمان نواب بتصرف) بعض نے نسخ کے معنی میں توسع سے کام لے کر تقید وتخصیص پر بھی اس کا اطلاق کردیا ہے اس بنا پر آیات منسوخہ کی تعداد بڑھ گئی ہے ابن العربی اور سیوطی کے نزدیک بائیس اور شاہ صاحب رحمہ اللہ نے’’ الفوذ‘‘ میں صرف پانچ آیتیں تسلیم کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ بھی بحث طلب ہیں ابن تیمیہ نے اس پر مفید مباحث لکھے ہیں یاد رہے کہ احادیث میں ناسخ ومنسوخ تو موجود ہے مگر نسخ اجتہا دی باطل ہے۔ (ترجمان )