أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ (١)۔
ف 1 ان تقولی ا یہ اصل میں لئلا تقو لو اس یاکر اھتہ ان تقو لوا ہے یعنی ی عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسانہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تو یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگے کہ ہم تو اس سے غافل تھے ( کبیر، ابن کثیر) ف 2 یا یہ عذار پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کو راہ پر چلتے رہے ہیں ہمارا قصور کیا ہے مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا، ( ابن کثیر۔ کبیر )، ف 3 یعنی ہمارے یعنی ہمارے آباؤ اجدانے لہذا وہی مجرم ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے عذار وہاں کوئی موقع نہ و ہوگا کیونکہ ابتدا ہر شخص توحید پر قائم رہنے کا عہد لیا گیا ہے اور پھر اس عہد کی یاددہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور تکابیں نازل فرمائی گئی ہیں۔ کذافی التفاسیر )