وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں (١)۔
ف 2 تاکہ ان کی کوئی اجتماعی قوت وجود میں نہ آسکے، آج یہودی اگرچہ ایک ریاست کی شکل میں یاک جگہ یعنی فلسطین میں جمع ہورنے کی کو شش کر رہے ہیں مگر دوسری حکومتوں کی پشت پناہی اور عرب دشمنی کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے، معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ ف 3 یا جیسے ولوگ جنہوں نے ہفتہ کو روز مچھلی کا شکار کرنے والوں کو منع کیا تھا، رازی) ف 4 یعنی نیک نہیں بلکہ شریر اور بد کار جیسے سود کھانے اور انبیا ( علیہ السلام) تک تک کو قتل کر ڈالنے والے، (کبیر) ف 5 کبھی راحت اور چین دیا اور کبھی تکالیف میں مبتلا کردیا۔ اس طرح کبھی خوشحالی نصیب ہوئی اور کبھی فقرو فاقہ سے دو چار ہوئے ( ابن کثیر) ف 6 یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور توراۃ کے احکام پر عمل کریں شاہ صا حب فرماتے ہیں کہ یہود کی دولت بر ہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے اور مختلف مذاہب پیدا ہوئے یہ احوال اس امت کو سنا یا ہے کہ یہ سب کچھ ان پر بھی ہوگا، حدیث میں فرمایا ہے کہ اس امت میں بعض بندر اوسئور ہوجائیں گے۔ اللہ گمراہی سے پناہ دے، ( از مو ضح )