فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا (١) تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے (٢)۔
ف 9 یہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صرف اہل معصیت ہی ہلاک ہوئے اور باقی دونوں گروہ بچ گئے جیساکہ مروی ہے کہ جب حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے یہ خیال پیش کیا کہ سکوت اختیار کرتے تھے اور انہوں نے بھی ارتکاب کرنے والوں کی مخالفت کیتھی تو حضرت ابن عباس (رض) نے ان کو خلعت پہنایا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ صرف وہی گروہ عذاب سے محفوظ رہا جو دوسروں کو منع کرتا تھا باقی سب ہلاک کر دئے گئے یہ قول بھی حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور اسناد جید کے ساتھ ثابت ہے مگر پہلا قول اصح ہے چنانچہ حافظ ابن کثیر حضرت ابن عباس کا یہ دوسرا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ولکن رجوعہ الی قول عکرمتہ فی نجا ۃ االساکن او لی من القول ھذا الانہ تبین حالھم بعد ذٰلک نیز حافظ ابن کثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن قرآن نے منع کرنے والوں کی نجات اور ظالموں کی ہلاکت کی تو تصریح کردی ہے مگر سکوت کرنے والوں سے سکوت ہی اختیار کیا ہے۔ لان الجزا من جنس العمل لہذا وہ نہ مدح کے مستحق ہیں اور نہ خدمت کے واللہ اعلم، ) ( ج 2 ص 257) تنبیہ : برائی کو دیکھ کر اس سے سکوت اختیار کرنا اس صورت میں جرم ہو تو ہے جب اس برائی سے کراہت نہ ہوجیساکہ حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم میں منکرات کا ارتکاب ہو رہا ہو اور با وجود قدرت کے دوسرے لوگ منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب سب پر آجاتا ہے۔ مزید دیکھئے ( سورۃ انفال آیت 25)