وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں (١) اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے (٢) ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں (٣) تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ (٤) اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو (٥)۔
ف 1 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو طور پر خبر دے دی تھی کا سامری نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ طہ ٰ آیت 85) ف 2 یعنی میں جاتے وقت تم کو کہہ گیا تھا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں میری نصیحتوں پر کار بند رہنا اور کوئی نئی حرکت نہ کر بیٹھنا میں اللہ کی طرف سے احکام لے آؤں گا مگر جب میں مقررہ میعاد ( 30 دن) تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مر کھپ گیاہوں۔ اس پر تم نے دین میں ایک بد عت ایجاد کرلی کہ خدا پر ایمان کے ساتھ بچھڑے کی بھی پوجا کرنے لگے اس طرح میرے بعد تم بہت بُرے خلیفہ ثابت ہوئے ہو یاتم نے بہت بُراکام کیا ہے۔ ( المنار، کبیر) ف 3 حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے ان کی شفقت حاصل کرنے کے لیے’’ یا ٱبۡنَ أُمَّ‘‘ کہا ہے ف 4 یعنی میں نے ان کو بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے ( دیکھئے سورۃ طہٰ آیت 90) مگر یہ لوگ مجھے مارنے پر پل پڑے اور خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ مجھے قتل ہی نہ کر ڈالیں ۔ ف 5 یعنی یہ نہ سمجھو کہ میں بھی ان کے جرم میں شریک ہوں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) شماتت اعدا ءیعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ ( بخاری )