وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا (١)
ف 8 یہی قصہ سورۃ طحہٰ میں بھی بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرئیل کے پاس قبیطوں کے زیورات تھے جنہیں وہ مصرے سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے، جب حضرت موسیٰ ٰ طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامریے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انہیں آگ میں گلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا اس آیت میں اس مجسمہ بنانے کو خود بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ سامری نے ان کی اجازت اور رضامندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے ( ابن کثیر، کبیر) مفسرین (رح) کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا۔ اواس میں جان پڑگئی تھی یا وہ محض ایک مجسمہ رہا جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی کی آواز نکلتی تھی؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑ اہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) کے پاس گھوڑے پرسوا ہو کر آئے سامری نے انھیں دیکھ لیا او ان کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انہوں نے آیت سورۃ طحہٰ فقبضت قبضتہ من اثر الر سول۔ کے معنی کے ہیں چنانچہ اس مٹی کو جب انہوں نے بچھڑے کے اس مجسمہ پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اس لیے علمانے کوئی قطعی بات کہنے سے احتراز کیا۔ ( ابن کثیر) نیز دیکھئے سورۃ طحہٰ آیت 88۔96) ف 9 پھر و خدا کیسے ہوسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑگئی ہے تو وہ ایک حیوان عاجز ہے معلوم ہوا کہ کے لیے متکلم اور ہادی ہونا ضروری ہے متکلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاحب امرونہی ہو اور ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت پر قدرت ہو۔ رازی )