سورة الاعراف - آیت 105

حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس (١) تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لایا ہوں (٢) سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ بھیجنے ولاے کا پیغام بلاکم وکاس پہنچا دے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہ کرے لہذا میری ہر بات صحیح اور سچی ہوگی حقیق علی، کے معنی واجب کے ہیں یا لائق کے اور اگر علی ہو تو حقیق کے معنی قائم اور ثابت کے ہوں گے۔ ف 7 یعنی انہیں اپنی غلامی سے آزاد کرو تاکہ وہ میرے ساتھ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اپنے اور تیرے رب کی پوری آّزاد کے ساتھ عبادت کرسکیں، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اس مطالبہ کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت یو سف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کے بھائی مصر میں آّکر آباد ہوگئے تھے اور وہیں ان پھیلی جو بنو اسرائیل کہلائی،، مصر آمد کے وقت بن اسرائیل کی تعداد تقریبا پونے چاسوتھی مگر جب سفر خروچ کیا تو اس وقت چھ لاکھ صرف لڑنے والے مرد تھے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی زندگی تک تو انہیں پوری طرح قتدارحاصل رہا لیکن اس کے بعد اس زمانے کے ذاعنہ انیں غلام بنالیا اور مصر میں ان کی کی حالت اچھوتوں سے بھی بدتر ہوگئی وہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مشن میں جہاں یہ چیز شامل تھی کہ فرعون کو توحید کی دعوت دی جائے وہاں یہ بھی ضرور تھا کہ اگر فرعون دعوت حق کو قبول نہ کرے اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم سے باز نہ آئے توبن اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلاکر کسی دوسرے جگہ لے جایا جائے جہاں وہ آزادنی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکیں یہاں فارسل میں حرف فاتفر یع کے لیے ہے اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) یہ مطالبہ اس وقت کیا جب فرعون نے ہر طرح دوسرے مقامات پر مذکور ہے واضح رہے کہ حضرت یو سف ( علیہ السلام) کے مصر میں داخل ہونے اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بحیثیت ایک پیغمبر کے مصر میں جانے کے درمیان چا رسو سال کی مدت ہے ( فتح القدیر)