سورة الاعراف - آیت 26

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے آدم کی اولاد! ہم نے تم پر لباس اتار ا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ (٢٦)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا: یعنی آسمان سے پانی اتارا، جس سے روئی اگتی ہے، ریشم اور پشم کا سامان مہیا ہوتا ہے، پھر تمھیں زراعت، شجرکاری، حیوان پروری، کپڑا بننے اور دوسری چیزیں بنانے کا طریقہ سکھا دیا۔ راغب نے فرمایا کہ یہاں ’’اَنْزَلَ‘‘ بمعنی ’’ خَلَقَ ‘‘ ہے، جیسے : ﴿وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ ﴾ [ الحدید : ۲۵ ] ’’اور ہم نے لوہا اتارا۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے، پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔‘‘ (موضح) يُوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا: یعنی لباس کا مقصد ستر پوشی اور زینت ہے۔ اس کے علاوہ وہ سردی، گرمی اور چوٹ وغیرہ سے بھی بچانے کے باعث بنتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ﴾ [ النحل : ۸۱ ] ’’اور اس نے تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمھیں تمھاری لڑائی میں بچاتی ہیں۔‘‘ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ: یعنی اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بدن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنوی لباس بھی ہے جو ہر لباس سے بہتر ہے، لہٰذا تمھیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پرہیز گاری، یعنی اﷲ کا خوف، ایمان اور عمل صالح کا لباس۔ بعض نے کہا ہے کہ ’’ لِبَاسُ التَّقْوٰى ‘‘ سے مراد اون کھدر وغیرہ کی قسم کا کھردرا اور موٹا لباس ہے، جسے صوفی لوگ پہنتے ہیں، مگر یہ صحیح نہیں، خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین، جن کی پرہیز گاری بے مثال تھی، عمدہ لباس بھی پہنا کرتے تھے اور وسعت کے باوجود سادہ لباس بھی پہنتے تھے۔ بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔ (قرطبی۔ روح المعانی) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پہنا جائے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اب وہی لباس پہنو جس میں پرہیز گاری ہو، یعنی مرد ریشمی (اور زعفرانی رنگ کا) لباس نہ پہنے، دامن لمبا نہ رکھے جو ٹخنوں کو ڈھانک لے اور جو منع ہوا ہے سو نہ کرے اور عورت بہت باریک ( یا تنگ) لباس نہ پہنے کہ لوگوں کو بدن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھائے۔ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ: تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور اﷲ تعالیٰ کی اس بڑی نعمت کی قدر کریں، یا نصیحت حاصل کریں اور برے کاموں سے بچیں۔