سورة الانعام - آیت 130

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے جو تم پر میرے فرامین بیان کرتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ؟ وہ کہیں گے ہم اپنے آپ پر گواہی دیتے ہیں کہ انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ واقعی وہ کافر تھے۔“ (١٣٠)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ: ’’ تم میں سے رسول‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول جن و انس میں سے انسان ہی ہوئے ہیں۔ افضل مخلوق فرشتے ہیں یا انسان اس کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۹) اور سورۂ فرقان(۲۰) جنوں کا نبی ہونا ثابت نہیں، علمائے سلف و خلف کی اکثریت کا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا، البتہ ان میں سے کئی منذرین گزرے ہیں، یعنی اپنی قوم کو خبردار کرنے والے، جو انسانوں کی طرف آنے والے رسولوں پر ایمان لاکر اپنی قوم کو پیغام پہنچاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۲۹ تا ۳۲) اور سورۂ جن۔ دونوں میں جنوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اقرار کیا ہے اور اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے، بلکہ سورۂ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن پہلے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے، پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔ (موضح) دیکھیے سورۂ انعام (۲۳ اور ۲۷ تا ۳۰)، سورۂ حٰم السجدۃ (۲۰، ۲۱) اور سورۂ یٰسٓ(۶۵)۔