سورة الانعام - آیت 38

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں اور نہ کوئی پرندہ ہے جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمہاری طرح امتیں ہیں ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔“ (٣٨)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ....: یعنی زمین پر چلنے والا کوئی جانور ( دیکھیے سورۂ نور : ۴۵) اور کوئی دو پروں سے اڑنے والا پرندہ نہیں، مگر سب تمھاری طرح امتیں ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ طائر کا معنی ہی پرندہ ( اڑنے والا) ہے، پھر ان الفاظ کی کیا ضرورت تھی کہ جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات تیز دوڑنے والے کو بھی پرندہ کہہ دیا جاتا ہے، جیسے کہہ دیا جائے کہ گھوڑا اڑتا جا رہا تھا۔ ’’دو پروں‘‘ کے لفظ نے یہ احتمال ختم کر دیا اور بتا دیا کہ یہاں مراد حقیقی پرندہ ہے، جو پروں سے اڑتا ہے، صرف تیز رفتار مراد نہیں۔ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ: یعنی زمین پر چلنے والے اور اڑنے والے تمام جانور تمھاری طرح کی امتیں ہیں، تمھاری طرح پیدا ہوتی ہیں، جوانی کو پہنچتی ہیں، پھر مر جاتی ہیں، تمھاری طرح ان کا پیدا کرنا، ان کی روزی کا سامان اور ہر ضرورت پوری کرنا اور ان کی مصلحتوں کا اہتمام کرنا سب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ (دیکھیے سورۂ ہود : ۶) جس طرح اللہ تعالیٰ ان کی مصلحتوں کی رعایت کرتا ہے اسی طرح تمھاری تمام مصلحتوں کا بھی خیال رکھتا ہے، ان لوگوں کے مطالبے کے مطابق نشانیاں اور معجزے نازل کرنا خود ان کی مصلحت کے خلاف ہے۔ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ: ’’الْكِتٰبِ ‘‘ سے مراد لوح محفوظ ہے، جو مخلوقات کے تمام احوال پر حاوی ہے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کے بیان کی اس میں کمی رہ گئی ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قلم خشک ہو چکا ہے اس پر جو تم کرنے والے ہو۔‘‘ [بخاری، القدر، باب جف القلم علی علم اللہ… قبل ح : ۶۵۹۶ ] ’’الْكِتٰبِ ‘‘سے مراد یہاں قرآن کریم بھی ہو سکتا ہے۔ رازی نے فرمایا ( یہی معنی زیادہ ظاہر ہے) اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دین کے متعلق تمام اصول (بنیادی امور) بیان کر دیے اور جن جزئیات کا ذکر نہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے بیان فرما دی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ [ النحل : ۸۹ ] ’’ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ وہ ہر چیز کا واضح بیان ہے۔‘‘ اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ پیغمبر جس چیز کا حکم دیں اسے بجا لاؤ اور جس چیز سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ، فرمایا : ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ﴾ [ الحشر : ۷ ] خلاصہ یہ کہ حدیث نبوی بھی کتاب الٰہی ہے اور دین کی کوئی ایسی بات نہیں جو ’’الْكِتٰبِ ‘‘ ( قرآن و حدیث) میں بیان نہ کر دی گئی ہو۔ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ: کفار کو متنبہ کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کے کسی جانور یا پرندے کے حالات سے نا واقف نہیں ہے اور اس کا نامۂ اعمال محفوظ ہے اور اس کا بدلہ بھی اسے ملے گا تو تم اپنے بارے میں یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (رازی) 5۔ اس آیت : ﴿ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ﴾ اور ایک دوسری آیت : ﴿وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ﴾ [ التکویر : ۵ ]( اور جب جنگلی جانور اکٹھے کیے جائیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا بھی قیامت کے دن حشر ہو گا۔ ان سے کفر و شرک اور ایمان و اعمال کا محاسبہ تو نہیں ہو گا، مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر کیا ہو گا اس کا بدلہ ضرور دلوایا جائے گا، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ضرور بالضرور حق داروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے، حتیٰ کہ بے سینگ بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔‘‘ [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۸۲ ] بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ بات بطور تمثیل بیان کی گئی ہے، کیونکہ جانور تو مکلف ہی نہیں ہیں، مگر حدیث میں ’’بدلے‘‘ کے صریح الفاظ اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔