وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا جو تم چھپاتے تھے
1۔ ”فَادّٰرَءْتُمْ“ اصل میں ”فَتَدَارَأْتُمْ“ تھا، باب تفاعل کی تاء کو دال میں بدل کر دال میں ادغام کر دیا، ادغام کرنے سے شروع والا حرف مدغم ساکن ہوا تو ساکن کو پڑھنے کے لیے شروع میں ہمزہ لائے، پھر شروع میں فاء آنے سے ہمزہ تلفظ سے ساقط ہو گیا، لکھنے میں موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا اور جو لوگ قاتل کو جانتے تھے انھوں نے اس پر پردہ ڈال دیا۔ اب وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے اور جھگڑا شروع ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ نے ذبح شدہ گائے کا کوئی حصہ مقتول پر مارنے کا حکم دیا، جس سے اس نے زندہ ہو کر قاتل کی نشان دہی کر دی۔ اتنی بات ان آیات سے صاف ظاہر ہے۔ تفاسیر میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مال دار شخص کو اس کے بھتیجے نے قتل کر دیا، تاکہ اس کا وارث بن جائے، پھر رات کو لاش اٹھا کر دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دی اور صبح کے وقت ان پر قتل کا دعویٰ کر دیا۔ اس پر دونوں طرف سے ہتھیار نکل آئے، لڑائی ہونے ہی والی تھی کہ بعض لوگوں نے کہا، اللہ کے رسول موسیٰ علیہ السلام سے پوچھ لو۔ بالآخر موسیٰ علیہ السلام نے انھیں یہ حکم دیا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کی تفصیلات اسرائیلیات سے لی گئی ہیں ، ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ 2۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ قصہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے قتل سے شروع ہوتا ہے، اس لیے اس کا مقام پہلے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم پہلے ذکر فرمایا، تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد مناظر سامنے آ سکیں ، مثلاً گائے ذبح کرنے سے پہلوتہی، بار بار سوال کرنا، ناحق قتل کرنا، پھر اسے چھپانے کی کوشش کرنا۔ اگر آیات کی ابتدا قتل نفس سے ہوتی تو یہ ایک ہی واقعہ معلوم ہوتا اور بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد پہلو نمایاں نہ ہوتے۔ (زمخشری) مگر ابوحیان نے فرمایا، ظاہر بات یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب بھی اسی طرح ہے جس طرح آیات کی ترتیب ہے، چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، انھیں اس کا راز معلوم نہ تھا، پھر ان میں قتل کا واقعہ ہو گیا، تو ان کے لیے گائے ذبح کرنے کی (ایک اور) حکمت بھی ظاہر کر دی گئی۔ ہمیں کوئی مجبوری نہیں کہ ہم بعد والے واقعہ کو پہلے اور پہلے کو بعد والا قرار دیں ۔ رہی تاریخ میں مذکور کہانیاں تو ان کاکچھ اعتبار نہیں ۔ [ البحر المحیط ] ابو حیان کی بات واقعتًا وزن رکھتی ہے۔ اس سے گائے ذبح کرنے کے حکم کی اہمیت و حکمت زیادہ واضح ہوتی ہے، جو گاؤ پرستی کی جڑ پر کلہاڑا مارنا ہے۔ 3۔ كَذٰلِكَ يُحْيِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى: اس سے صاف ظاہر ہے کہ گائے کا ٹکڑا مارنے سے وہ مقتول زندہ ہو گیا۔ فرمایا : ’’اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘ یعنی یہ واقعہ قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی بھی ایک دلیل اور نشانی ہے، کیونکہ جو ایک مردے کو زندہ کر سکتا ہے وہ تمام مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قادر ہے، فرمایا : ﴿ مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ﴾ [ لقمان : ۲۸ ] ’’نہیں ہے تمھارا پیدا کرنا اور نہ تمھارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔‘‘ ۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ مقامات پر دنیا میں مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے : (1) ﴿ ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ﴾ [ البقرۃ : ۵۶ ] (2) اس مقتول کا قصہ جو یہاں ذکر ہوا ہے۔ (3) ان لوگوں کا قصہ جو موت سے ڈر کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تھے۔ [ البقرۃ : ۲۴۳ ] (4) اس شخص کا قصہ جو ایک برباد شہر سے گزرا۔ [ البقرۃ : ۲۵۹ ] (5) ابراہیم علیہ السلام اور چار پرندوں کا قصہ۔ [ البقرۃ : ۲۶۰ ] اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعے زمین کو زندہ کرنے سے جسموں کو دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔ [ یٰسٓ : ۳۳ ]