وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰ نے جواب دیا کہ میں جاہلوں میں ہونے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں
1۔ مصر میں غلامی کے زمانے میں غالب قوم کے اثر سے بنی اسرائیل میں گائے کی تقدیس کا عقیدہ سرایت کر گیا تھا، اس کا ظہور اس وقت بھی ہوا جب موسیٰ علیہ السلام تورات لینے کے لیے طور پر گئے، تو انھوں نے بچھڑا بنا کر اس کی پرستش شروع کر دی۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کوئی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، اس پر انھوں نے مذاق سمجھا کہ بھلا گائے بھی ذبح کی جا سکتی ہے۔ کہنے لگے، کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتوں کی پرستش پر صاف کہا کہ یقیناً تم اور تمھارے آبا و اجداد کھلی گمراہی میں تھے، تو اس پر انھیں اعتبار نہ آیا کہ کوئی شخص بت پرستی کو بھی گمراہی کہہ سکتا ہے، کہنے لگے : ﴿ اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِيْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۵۵ ] ’’کیا تو ہمارے پاس حق لایا ہے، یا تو کھیلنے والوں سے ہے۔‘‘ الغرض! موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا : ’’میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ جاہلوں سے ہو جاؤں ۔‘‘ معلوم ہوا مذاق اور ٹھٹھا جاہلوں کا کام ہے، البتہ مزاح اور خوش طبعی الگ چیز ہے، اس میں کوئی بات حقیقت کے خلاف نہیں ہوتی، نہ اس میں کسی کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہے، بلکہ جس سے خوش طبعی کی جائے وہ خود بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مزاح فرما لیتے تھے۔ 2۔ بَقَرَةً: اس کی تنوین سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو کافی تھا، مگر وہ تو گائے ذبح کرنے پر آمادہ ہی نہ تھے، ادھر موسیٰ علیہ السلام کے حکم سے سرتابی بھی نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انھوں نے پے در پے سوال کیے، جن کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کسی طرح جان چھوٹ جائے، مگر وہ جتنے سوال کرتے گئے پھنستے گئے، آخر اس شوخ زرد رنگ کی گائے پر بات آ پہنچی جو عبادت کے لیے مثالی سمجھی جاتی تھی۔ آج کل بعض مسلمان گائے کی تو نہیں ، البتہ مخصوص قسم کے گھوڑے کی حد سے بڑھ کر تعظیم کرتے ہیں ۔ 3۔ عکرمہ نے فرمایا کہ وہ ’’ان شاء اللہ‘‘ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے۔ (طبری بسند حسن ) معلوم ہوا کہ انھیں گاؤ پرستی کی نجاست سے نجات بھی اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی برکت سے حاصل ہوئی۔ 4۔ ”بَقَرَةً“ میں تاء وحدت کی ہے، ”بَقَرٌ“ جنس ہے، جیسے ”تَمْرٌ“اور ”نَمْلٌ“جنس ہے اور ’’ تَمْرَةٌ ‘‘اور ’’ نَمْلَةٌ ‘‘سے مراد ایک کھجور اور ایک چیونٹی ہے، اس کا تذکیر و تانیث سے تعلق نہیں ، وہ گائے بھی ہو سکتی ہے اور بیل بھی، جیسا کہ ہل چلانا اور پانی کھینچنا بیل کی صفات ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ انھیں بیل ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصر میں کھیتی باڑی کا کام بیل کے ساتھ ساتھ گائے سے بھی لیا جاتا ہو۔ 5۔ اس واقعہ سے بے جا سوالات کی قباحت بھی ظاہر ہے، عمل پر آمادہ انسان زیادہ سوالات کرتا ہی نہیں ، فرمایا : ﴿ لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ﴾ [ المائدۃ : ۱۰۱ ] ’’ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں۔‘‘