وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا
اور بہت سے رسولوں کی طرف جنہیں ہم اس سے پہلے آپ سے بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسولوں کی طرف بھی جنہیں ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، ازخود کلام کرنا۔“ (١٦٤)
1۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ : جن رسولوں کے اسمائے گرامی اور واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد چوبیس (۲۴) یا پچیس (۲۵) ہے۔ آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، ایوب، شعیب، موسیٰ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، الیاس، یسع، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، ذوالکفل (اکثر مفسرین کے نزدیک) اور محمد صلوات اﷲ و سلامہ علیہم اجمعین۔ 2۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ: جن انبیاء و رسل کے نام قرآن میں ذکر نہیں ہوئے ان کی تعداد کتنی ہے، اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جو بہت مشہور ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک حدیث میں آٹھ ہزار بتائی گئی ہے، مگر ان احادیث میں کلام ہے۔ 3۔ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا: یعنی موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا، جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۳) پھر اگر موسیٰ علیہ السلام کے اس شرف سے دوسرے انبیاء پر طعن نہیں آ سکتا تو تورات کا یک بارگی نزول دوسرے انبیاء کے لیے موجب طعن کیسے ہو سکتا ہے۔ (رازی) 4۔ اس آیت سے اﷲ تعالیٰ کا کلام کرنا بھی ثابت ہوا، جو لوگ یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر اﷲ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان آیات و احادیث کا کیا جواب دیں گے جن میں صاف لفظوں میں اﷲ تعالیٰ کے کلام کا ذکر ہے۔ اﷲ کے ان بندوں نے اﷲ تعالیٰ کو انسان سے بھی عاجز یعنی گونگا بنا دیا اور اپنے خیال میں اسے اﷲ تعالیٰ کی خوبی سمجھ رہے ہیں۔ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ ایسے ہی لوگوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ قرآن یا حدیث میں کہیں دکھاؤ کہ قرآن اﷲ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے مگر نہ اس وقت ان کے مخالف یہ دکھا سکے نہ اب کوئی دکھا سکتا ہے۔