سورة النسآء - آیت 162

لَّٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” لیکن ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ اور ایمان والے ہیں، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز ادا کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم عنقریب بہت زیادہ اجر عطاکریں گے۔“ (١٦٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ ....: علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو اﷲ کی طرف سے آنے والی وحی کے متلاشی ہوں اور اسی سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں، نہ لکیر کے فقیر ہوں نہ تقلید آباء کے اور ”الْمُؤْمِنُوْنَ“ سے مراد تورات پر صحیح ایمان رکھنے والے ہیں، یعنی یہ مومن اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ یہ اہل کتاب کے مومنوں کو بشارت ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئے، مثلاً عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ وَ الْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوةَ: اس سے پہلے اور بعد والی تمام صفات مرفوع ہیں اور یہ منصوب ہے، اسے ’’منصوب علی المدح‘‘ یا ’’علی الاختصاص‘‘ کہا جاتا ہے۔ گویا یہ ’’اَخُصُّ‘‘ کا مفعول ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اور جو خاص کر نماز ادا کرنے والے ہیں۔‘‘