وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا۔ کہ تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ انہوں نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے
صحرائے سینا میں ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا اور صحرا کی دھوپ انھیں جلائے دیتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص قسم کے بادل کا سایہ کر دیا اور کھانے کے لیے من و سلویٰ کا انتظام فرما دیا۔ ”الْمَنَّ“ کی تفسیر میں سب سے صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اَلْكَمَأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَائُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ ))[بخاری، الطب، باب المن شفاء للعین : ۵۷۰۸۔ مسلم : ۲۰4۹، عن سعید بن زید رضی اللہ عنہ ] ’’کبھی ”مَنّ“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ”مَنّ“ متعدد چیزیں تھیں جو صحرا میں خود بخود پیدا ہوتی تھیں ، ان میں سے ایک کھمبی بھی تھی۔ اسی طرح وہ میٹھی گوند بھی ”مَنّ“ کی ایک قسم تھی جو ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ سے ”مَنّ“ کی تفسیر میں آئی ہے۔ ”السَّلْوٰى“ اسم جنس ہے، اس کا واحد ”سَلْواةٌ“ آتا ہے، بٹیر یا بٹیر سے ملتا جلتا پرندہ ہے۔ صحرا میں اللہ کے حکم سے بے شمار پرندے آ جاتے اور وہ انھیں پکڑ کر کھا لیتے تھے۔