سورة الاخلاص - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’مشرکین نے کہا، اے محمد! ہمارے لیے اپنے رب کا نسب بیان کیجیے تو اللہ عزو جل نے ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ نازل فرمائی۔‘‘ [مستدرک حاکم:2؍ 540، ح : ۳۹۸۷] اس سورت کے صحیح احادیث میں بہت سے فضائل آئے ہیں، اختصار کی وجہ سے چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں : (1) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کو ( قیام اللیل میں) ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ بار بار پڑھتے ہوئے سنا ( اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں پڑھ رہا تھا)۔ صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے کم سمجھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ )) [ بخاري، فضائل القرآن، باب فضل : ﴿ قل ھو اللہ أحد﴾: ۵۰۱۳، ۵۰۱۴ ] ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ سورت قرآن کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔‘‘ (2) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ نماز میں اپنی قراء ت کو ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ کے ساتھ ختم کرتا تھا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((سَلُوْهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذٰلِكَ؟ )) ’’اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‘‘ لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا : ((لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمٰنِ وَ أَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا)) ’’اس لیے کہ یہ رحمان کی صفت ہے اور مجھے اس کے پڑھنے سے محبت ہے۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَخْبِرُوْهُ أَنَّ اللّٰهَ يُحِبُّهُ )) [ بخاري، التوحید، باب ما جاء في دعاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمتہ....: ۷۳۷۵] ’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ سوتے وقت اور دوسرے اوقات میں معوذتین کے ساتھ ملا کر یہ سورت پڑھنے کی احادیث معوذتین کے شروع میں آئیں گی۔ (ان شاء اللہ) تنبیہ : بعض روایات میں اس سورت کو روزانہ دوسو مرتبہ یا سو مرتبہ یا پچاس مرتبہ پڑھنے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں، مگر ان روایات کی سندیں صحیح نہیں ہیں۔ شوکانی نے فتح القدیر میں وہ روایات درج کرکے ان کا ضعف واضح کیا ہے۔ ابن کثیر نے بھی ان روایات پر کلام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورت کو تین سے زیادہ کسی عدد میں مسنون سمجھ کر پڑھنا درست نہیں۔ ہاں! اپنی سہولت کے لیے کوئی شخص کوئی عدد مقرر کر لے، اسے مسنون نہ سمجھے تو درست ہے۔