أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِ ....: ’’ نَجْدٌ‘‘ کا لغوی معنی ’’بلند جگہ‘‘ہے۔ ’’النَّجْدَيْنِ‘‘ دو بلند جگہوں سے مراد ماں کی چھاتیاں ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت کے مطابق ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے، انھیں منہ میں ڈال کر دودھ چوستا ہے جس پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ رہنمائی نہ کرے تو کوئی بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ آنکھوں، زبان اور ہونٹوں کے الفاظ کے ساتھ ماں کی چھاتیوں کی مناسبت واضح ہے۔ اکثر مفسرین نے’’ النَّجْدَيْنِ ‘‘ سے مراد خیر و شر کے دو واضح راستے لیے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ کی بغاوت کرتے ہوئے اور بے تحاشا مال لٹاتے ہوئے یہ گمان کیسے کر لیا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی اس سے پوچھنے والا ہے؟ حالانکہ جن آنکھوں سے وہ دیکھ رہا ہے وہ ہم نے بنائی ہیں، زبان اور ہونٹ جن سے ڈینگیں مار رہا ہے وہ بھی ہم نے پیدا کیے ہیں، پھر ہم نے اسے خیر و شر کے راستے کا شعور بھی عطا فرمایا ہے۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے آنکھیں عطا کرنے والا خود ہی دیکھ نہ رہا ہو، اسے زبان اور ہونٹ دینے والا اسے پوچھ بھی نہ سکتا ہو اور خیر وشر کا شعور عطا فرمانے والا اس سے اس شعور کے استعمال کے متعلق باز پرس ہی نہ کرے؟