سورة النسآء - آیت 94

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے تم اسے یہ نہ کہو کہ تو ایماندار نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں۔ تم بھی پہلے ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا۔ لہٰذا تم ضرور تحقیق کرلیا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا:ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنی تھوڑی سی بکریوں کے پاس تھا، کچھ مسلمان وہاں سے گزرے، اس نے ’’اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ‘‘ کہا لیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی بکریاں لے لیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، جس میں ہے : ﴿ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ ’’تم دنیا کا سامان چاہتے ہو ؟‘‘ اس سے مراد وہ تھوڑی سی بکریاں ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ولا تقولوا لمن ألقیٰ....: ۴۵۹۱ ] فَتَبَيَّنُوْا : یہاں تبین یعنی تحقیق کر لینے کا حکم سفر کے ساتھ ذکر کیا ہے، مگر یہاں سفر کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے، یعنی یہ حادثہ جس سے متعلق آیت نازل ہوئی ہے، سفر میں پیش آیا تھا، ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ہے۔ (قرطبی) كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ: یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی، تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کو غالب کر کے تم پر احسان کیا۔ (قرطبی)