سورة النبأ - آیت 38

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جس دن جبریل اور ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے کوئی بھی بات نہیں کر پائے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے گا اور وہ صحیح بات کرے گا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ صَفًّا ....:’’ الرُّوْحُ ‘‘ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں، جیساکہ فرمایا : ﴿ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ﴾ [ الشعراء : ۱۹۳ ] ’’اس (قرآن )کو امانت دار روح لے کر اترا ہے۔‘‘ ان کا الگ ذکر ان کی شان کی عظمت کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے، جیساکہ سورۂ بقرہ میں ہے:﴿ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ﴾ [ البقرۃ : ۹۸ ] ’’جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔‘‘ دوسرا معنی جو لفظ سے ظاہر ہے بنو آدم کی ارواح ہیں۔ 2۔ صحیح احادیث کے مطابق یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نیک و بد کے فیصلے کے لیے آسمان سے زمین پر میدانِ محشر میں نزول فرمائے گا اور لوگ سورج کی گرمی اور پسینے سے گھبرا جائیں گے اور وہ آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک سب انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں کہ حساب کتاب شروع ہو، لیکن کسی نبی کی جرأت اور طاقت اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی نہ ہوگی۔ آخر کار خاتم النّبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرنے کا حکم ہو گا اور آپ کی شفاعت سے سب لوگوں کا حساب شروع ہوگا۔ (احسن التفاسیر) دیکھیے صحیح بخاری (۷۴۴۰ ، ۷۵۱۰)۔ لَا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ ....: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے بات ( سفارش ) کرنے والے کے لیے دو شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ رحمان اسے بات(سفارش) کرنے کی اجازت دے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۵ ] ’’کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے ؟‘‘ دوسری یہ کہ وہ درست بات کرے، سفارش کرنے میں غلطی نہ کرے۔ مثلاً غیر مستحق کی سفارش نہ کر بیٹھے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کے لیے سفارش نہیں کر سکیں گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے بات کی جائے اس کے لیے دو شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ رحمان اس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت دے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى ﴾ [ الأنبیاء : ۲۸ ] ’’وہ فرشتے صرف اسی کے لیے سفارش کرتے ہیں جسے رحمان پسند کرے۔‘‘ دوسری یہ کہ’’ قَالَ صَوَابًا ‘‘ یعنی دنیا میں اس نے درست بات کہی ہو، یعنی کلمۂ توحید کہا ہو، مسلمان ہو۔ کافر و مشرک نے دنیا میں درست بات نہیں کہی ہوتی، اس لیے اس کے حق میں سفارش کی اجازت نہیں ملے گی ۔ (جامع البیان)