سورة القلم - آیت 48

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو، اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہو جاؤ

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ....: مچھلی والے سے مراد یونس علیہ السلام ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار صبر سے کریں، عذاب آنے میں دیر سے پریشان نہ ہوں اور انھیں دی ہوئی مہلت کو لمباسمجھ کر جلد بازی اور اکتاہٹ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھیں جیسا مچھلی والے( یونس علیہ السلام ) سے سرزد ہوا کہ وہ اجازت کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ یونس علیہ السلام کے واقعہ کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۹۸)، انبیاء (88،87) اور صافات (۱۳۹ تا ۱۴۸)۔ یونس علیہ السلام کی ندا یہ تھی : ﴿ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ [ الأنبیاء : ۸۷ ] ’’تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ ’’ وَ هُوَ مَكْظُوْمٌ ‘‘ (غم سے بھرے ہوئے ہونے) کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان کے دل میں کئی غم اور صدمے اکٹھے ہو گئے تھے، ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا غم، دوسرا صریح اجازت کے بغیر اپنے چلے آنے کا، تیسرا سمندر میں پھینک دیے جانے کا اور چوتھا مچھلی کے پیٹ میں قید ہو جانے کا۔ ان سب غموں اور صدموں کا علاج انھوں نے بارگاہ الٰہی میں دعا، تسبیح اور استغفار سے کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر غم سے نجات عطا فرما دی۔