أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ
کیا تم اس ہستی سے بے خوف ہوگئے جو آسمان میں ہے وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین ہچکولے کھانے لگے؟
1۔ ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَآءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ....: ’’ تَمُوْرُ ‘‘ حرکت کرنے لگے، یعنی زبردست زلزلے سے لرزنے لگے۔ (دیکھیے طور : ۹) پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں اپنی شان قہاریت کا اظہار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین اگرچہ تمھارے تابع کر دی گئی ہے کہ تم جیسے چاہو اس میں تصرف کر سکو، لیکن یاد رکھو کہ یہ اسی آسمان والے کی ملکیت ہے، وہ چاہے تو تمھیں اس کے اندر دھنسا دے (جس طرح قارون کو دھنسا دیا۔ دیکھیے قصص : ۸۱) اور چاہے تو بھونچال سے لرزنے لگے۔ لہٰذا اس پر سرکش و خود مختار ہو کر نہیں بلکہ فرماں برداروں کی طرح ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرو۔(اشرف الحواشی) اس آیت کا اور اس کے بعد والی آیت کا مفہوم سورۂ انعام (۶۵) اور سورۂ کہف (69،68) میں بیان ہوا ہے۔ 2۔ ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَآءِ : ’’ السَّمَآءِ ‘‘ ’’سِمْوٌ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی بلندی ہے۔ ہر وہ چیز جو اوپر ہو اسے ’’سَمَاءُ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ ان دونوں آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوپر کی طرف ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر رحمان کا عرش پر ہونا بیان فرمایا ہے۔ معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی لونڈی کے متعلق پوچھا کہ کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِئْتِنِيْ بِهَا )) ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : (( أَيْنَ اللّٰهُ؟ )) ’’اللہ کہاں ہے؟ ‘‘ اس نے کہا : (( فِي السَّمَآءِ)) ’’آسمان میں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَنْ أَنَا؟ ))’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا : (( أَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰهِ )) ’’آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ )) [ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام في الصلاۃ....: ۵۳۷ ] ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ تمام سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے، بعد کے لوگ جو یونانی فلسفے سے متاثر ہو گئے انھوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت علو( اوپر ہونے کی صفت) کا انکار کر دیا، کسی نے کہا وہ لا مکان ہے، کسی نے کہا وہ ہر جگہ ہے اور قرآن و حدیث کی صاف نصوص کی تاویل کی۔ بعض لوگ تو یہاں تک پہنچ گئے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ سوال ہی کفر ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ انھوں نے یہ خیال نہ کیاکہ یہ سوال تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور اس کے جواب میں بھی اللہ تعالیٰ کے آسمانوں پر ہونے کے عقیدے کو آپ نے ایمان قرار دیا ہے، (دیکھیے مسلم : ۵۳۷) تو کیا نعوذ باللہ یہ فتویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لگایا جائے گا؟ قرآن مجید ’’ ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَآءِ ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا آسمان پر ہونا فرما رہا ہے اور یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ وہ دعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے، مگر فلسفے کے مارے ہوئے یہ حضرات کبھی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ وہ آسمانوں پر بیٹھا ہوا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ پھر کیا وہ آسمان میں رہتا ہے؟ اس طرح تو وہ آسمان کا محتاج ہوا جبکہ آسمان و زمین خود اس نے پیدا کیے ہیں۔ حالانکہ سلف صالحین کے عقیدہ کے مطابق وہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال کرنا جائز نہیں جو اس نے خود اپنے متعلق استعمال نہ کیا ہو۔ اب یہ کس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کھڑا ہے یا بیٹھا ہے؟ قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ کا بلندی کی جانب ہونا اور عرش پر ہونا ثابت ہے، اس کی کیفیت کسی کو معلوم نہیں اور وہ عرش کا یا بلندی کا محتاج نہیں بلکہ اس کے عرش پر ہونے کے باوجود عرش خود اس کا محتاج ہے اور اس نے عرش اور آسمان و زمین کو تھام رکھا ہے ۔ مخلوق میں کئی چیزیں ہیں جو اوپر ہیں، مگر ان کے نیچے کی چیزیں اپنے قیام میں ان کی محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کی مثال تو اس سے بہت بلند ہے۔ مومن جب بھی اللہ تعالیٰ کا تصور کرتا ہے یا اس سے دعا کرتا ہے، تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا پروردگار آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور اسے اپنے رب سے تعلق جوڑنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی۔ تاویلوں کی مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کرپاتے کہ ان کا رب کہاں ہے جس کی طرف وہ توجہ کریں۔ وہ لا مکان کے چکر ہی سے نہیں نکل سکتے۔ اسلام کے فطری اور سادہ عقائد کو چھوڑ کر فلسفی بھول بھلیاں اختیار کرنے کا یہی انجام ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فجر ( ۲۲) کی تفسیر۔