هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کردیا ہے اس کے راستوں پر چلو پھرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ! اور اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے
1۔ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا....: ’’ ذَلُوْلًا ‘‘ جو تمھارے تابع ہو جائے، سرکشی نہ کرے۔ یہاں زمین کو اس چوپائے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو پوری طرح انسان کے تابع ہوتا ہے، خواہ اس پر سواری کرے یا ہل میں جوت لے۔ یعنی تم اس پر چل پھر سکتے ہو اور اسے کام میں لا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑ گاڑ کر اسے ہر وقت زلزلے کی حالت میں رہنے سے محفوظ کر دیا، تاکہ تم سکون سے رہ سکو۔ اسے لوہے کی طرح سخت نہیں بنایا، ورنہ نہ اس سے کچھ اُگتا، نہ عمارتیں بنتیں، نہ نہریں یا کنوئیں کھودے جا سکتے اور نہ انسان اور جانوروں کے رزق کا انتظام ہوتا اور اسے ضرورت سے زیادہ نرم بھی نہیں بنایا، ورنہ سب کچھ اس کے اندر دھنس جاتا۔ مشرک اقوام کی کم عقلی دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو انسان کے تابع کیا، انھوں نے اسے دھرتی ماتا کے نام سے اپنا معبود بنا لیا۔ ’’مَنَاكِبُ‘‘ کا لفظی معنی کندھے ہے۔ جس طرح بالکل مطیع جانور پیٹھ کے علاوہ کندھوں پر بھی سواری کرلینے دیتا ہے، زمین بھی تمھارے لیے ایسے ہی مسخر ہے، اس پر جہاں چاہو چلو پھرو۔ 2۔ وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ....: اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ، مگر آزادی سے نہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا دیا ہوا کھا رہے ہو اور آخر کار تمھیں اپنے رب کے سامنے حاضر ہوناہے جو تم سے ایک ایک چیز کا حساب لے گا کہ اسے کن ذرائع سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا؟(اشرف الحواشی)