سورة التحريم - آیت 6

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر کیے گئے ہیں وہ کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا : پچھلی آیات میں امہات المومنین کی تربیت اور ان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کا بیان تھا، اب تمام ایمان والوں کو اس کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ’’ نَارًا ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اس عظیم آگ سے بچ جاؤ۔ ’’ قُوْا‘‘ (بچاؤ) ’’وَقٰي يَقِيْ وَقْيًا وَ وِقَايَةً‘‘ (ض) سے امر حاضر جمع مذکر ہے۔ اس میں ایمان والوں کو ایک نہایت اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور اس کے ساتھ اپنے گھر والوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کا اہتمام کر کے انھیں بھی جہنم کی آگ سے بچائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ )) [ بخاري، الجمعۃ، باب الجمعۃ في القرٰی والمدن : ۸۹۳ ] ’’تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے۔‘‘ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے ہر فرد کو اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دینے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا، فرمایا : ﴿وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ [ طٰہٰ : ۱۳۲ ] ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ۔‘‘ اس مقصد کے لیے بچپن ہی سے انھیں نماز روزے اور اسلام کے دوسرے احکام پر عمل کی عادت ڈالنی چاہیے اور سمجھ دار ہونے پر اس کے لیے سختی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرنی چاہیے، خواہ ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں اور سن تمیز شروع ہونے کے ساتھ ہی انھیں جنسی بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مُرُوْا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ )) [ أبو داؤد، الصلاۃ، باب متٰی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ۴۹۵، و قال الألباني حسن صحیح ] ’’اپنے بچوں کو نماز کاحکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور اس پر انھیں مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور بستروں میں انھیں ایک دوسرے سے الگ کر دو۔‘‘ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۴) کی تفسیر۔ عَلَيْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ....: ’’ غِلَاظٌ ‘‘ ’’غَلِيْظٌ‘‘ کی جمع ہے، سخت دل والے، بے رحم اور ’’ شِدَادٌ ‘‘ ’’شَدِيْدٌ‘‘ کی جمع ہے، سخت قوت والے، نہایت مضبوط۔ یہاں جہنم پر مقرر فرشتوں کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں : (1) وہ نہایت سخت دل ہیں، انھیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔ (2) سخت قوت والے ہیں، کوئی ان کی گرفت سے نکل نہیں سکے گا۔ (3) اللہ تعالیٰ انھیں جو حکم بھی دے اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔ (4) اور وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرتے، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۲۷)۔