سورة الحشر - آیت 6

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف لوٹاوہ ایسا مال نہیں ہے جس پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ ....: ’’فَاءَ يَفِيْءُ فَيْئًا‘‘ (ض) لوٹنا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ حَتّٰى تَفِيْٓءَ اِلٰى اَمْرِ اللّٰهِ﴾ [ الحجرات : ۹ ] ’’یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ ’’أَفَاءَ يُفِيْءُ‘‘ (افعال)لوٹانا۔ ’’فے‘‘ ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر دشمن سے حاصل ہوں اور جو اموال جنگ کے ساتھ حاصل ہوں انھیں غنیمت کہا جاتا ہے (بعض اوقات غنیمت پر بھی فے کا لفظ بول دیا جاتا ہے)۔ ان اموال کو ’’فے‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کفار کا قبضہ ناجائز ہے، جب مسلمان انھیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اموال واپس لیتے ہیں۔ ’’ اَوْجَفْتُمْ ‘‘ ’’وَجَفَ يَجِفُ وَجْفًا وَ وَجِيْفًا‘‘ (ض) ’’ اَلْفَرَسُ‘‘ گھوڑے کا دوڑنا۔ ’’أَوْجَفَ يُوْجِفُ إِيْجَافًا‘‘ دوڑانا۔ ’’ خَيْلٍ ‘‘ گھوڑوں کی جماعت۔ ’’ رِكَابٍ ‘‘ سواری کے اونٹوں کے لیے اسم جمع ہے۔ 2۔ ’’ وَ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ ‘‘ اس جملے کا عطف ’’ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ ....‘‘ پر ہے اور مقصد غزوۂ بنی نضیر میں مسلمانوں کو عطا ہونے والی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت کا بیان ہے۔ 3۔ بنو نضیر اپنی جلا وطنی کے ساتھ جو مکان، باغات اور زمینیں چھوڑ گئے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کے جو اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واپس لوٹائے ہیں ان پر تمھارا کوئی حق نہیں، کیونکہ تم نے انھیں گھوڑے یا اونٹ دوڑا کر یعنی جنگ کر کے حاصل نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ کسی قابل ذکر لڑائی کے بغیر وہ سب اپنے رسول کو عطا فرما دیے ہیں۔ یاد رہے کہ بنو نضیر کی بستیاں مدینہ سے صرف دو میل کے فاصلے پر تھیں اور مسلمانوں نے پیدل جا کر ہی ان کا محاصرہ کر لیا تھا، صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر گئے اور انھوں نے اس رعب کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا، جنگ کیے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے اور اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے حوالے کر دیا۔ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ....: یعنی بنو نضیر کے اموال پر قبضہ تمھارے گھوڑے یا اونٹ دوڑانے کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے دشمنوں میں سے جن پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے، وہ اس کے ڈالے ہوئے رعب کی وجہ سے لڑائی کے بغیر ہی اپنے آپ کو حوالے کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔ 5۔ یہ پہلے اموال تھے جو جنگ کے بغیر محض محاصرے کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔ انھیں اصطلاح میں ’’فے ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بدر میں لڑائی کے نتیجے میں جو اموال حاصل ہوئے انھیں ’’غنیمت ‘‘کہا جاتا ہے۔ ان کی تقسیم کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں بیان فرما دیا : ﴿ وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ﴾ [ الأنفال :۴۱ ] ’’اور جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے۔ ‘‘ یعنی اس میں سے پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول، ذوی القربیٰ، یتامیٰ، مساکین اور ابنِ سبیل کے لیے ہو گا اور باقی چار حصے لڑنے والوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ رہے اموال فے جو بنو نضیر سے حاصل ہوئے، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر تمھارا کوئی حق نہیں، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا فرمائے ہیں۔ یہی معاملہ ان تمام بستیوں کا ہے جو بعد میں جنگ کے بغیر حاصل ہوئیں، مثلاً بنو قریظہ کی بستیاں اور خیبر کے وہ علاقے جو جنگ کے بغیر فتح ہوئے، مثلاً فدک وغیرہ، ان سب کو مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں دے دیا گیا کہ آپ جس کو جتنا چاہیں دے دیں یا اپنے پاس رکھیں۔ البتہ مستحقین کی چند اقسام متعین کر دی گئیں کہ مال کی تقسیم انھی میں رہنی چاہیے۔ ان مستحقین کا بیان اگلی آیت میں فرمایا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيْرِ مِمَّا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوْجِفِ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، يُنْفِقُ عَلٰی أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي السِّلاَحِ وَالْكُرَاعِ، عُدَّةً فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ )) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ ما أفاء اللہ علٰی رسولہ﴾ :۴۸۸۵ ] ’’بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے عطا فرمائے تھے، جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے۔ آپ ان میں سے اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دیتے، پھر جو باقی ہوتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اسلحے اور گھوڑوں میں صرف کر دیتے تھے۔‘‘