سورة المجادلة - آیت 4

فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔ قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں، اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور انکار کرنے والوں کے لیے دردناک سزا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا: اس سے معلوم ہوا کہ اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے تو روزوں سے یا کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ: پھر جو شخص ہاتھ لگانے سے پہلے دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ظہار کرنے والا خواہ کمزوری کی وجہ سے پے در پے اتنے روزے نہ رکھ سکتا ہو یا شدت شہوت کی وجہ سے اتنے دن صبر نہ کر سکتا ہو، ’’ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ ‘‘ میں دونوں شامل ہیں، جیسا کہ سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ماہِ رمضان گزرنے تک کے لیے ماں کہہ دیا، پھر کسی رات اس سے جماع کر بیٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حَرِّرْ رَقَبَةً ))’’ایک گردن آزاد کرو۔‘‘ انھوں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا : ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میرے پاس اس گردن کے سوا کوئی گردن نہیں۔‘‘ فرمایا : (( فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ )) ’’پھر دو ماہ پے در پے روزے رکھ۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’مجھ پر روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ مصیبت آئی ہے۔‘‘ فرمایا : (( فَأَطْعِمْ وَ سَقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا )) [أبو داؤد، کتاب الطلاق، باب في الظہار : ۲۲۱۳ ] ’’پھر ساٹھ مسکینوں میں ایک وسق کھجور تقسیم کر دو۔‘‘ فَاِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا: اس سے معلوم ہواکہ ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھا نا کھلانے سے یا ساٹھ دنوں کا کھانا دینے سے یہ کفارہ ادا نہیں ہوگا، بلکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا پڑے گا، خواہ ایک وقت میں کھلا دے یا مختلف وقتوں میں۔ آیت کے الفاظ کے مطابق اس کا بلا تکلف مطلب یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک دفعہ پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ (شوکانی) ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے مراد ان کے احکام کے سچا ہونے پر یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا ہے، کیونکہ ایمان میں تصدیق، اقرار اور عمل تینوں چیزیں شامل ہیں۔ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: یعنی ظہار کا حرام ہونا اور اس سے رجوع کی صورت میں اس پر کفارہ لازم ہونا اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں، جن سے تجاوز حرام ہے۔ وَ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: ’’اَلْكَافِرِيْنَ‘‘ انکار کرنے والے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کے حکموں کو نہیں مانتے وہ حقیقت میں کافر ہیں، چاہے دنیوی احکام میں اور مردم شماری کی رُو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہوں۔