سورة الحديد - آیت 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول (جمع) بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل عطا کی، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے نرمی اور رحم ڈال دیا، اور انہوں نے خود رہبانیت ایجاد کرلی، حالانکہ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے خود ہی اسے ایجاد کرلیا اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ان کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا مگر ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا: ’’ قَفَّيْنَا ‘‘ ’’ قَفًا‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی گدی (گردن کا پچھلا حصہ) ہے۔ ’’ اٰثَارِ‘‘ ’’أَثَرٌ‘‘ کی جمع ہے، نشانِ قدم۔ مراد یہ ہے کہ پہلے رسولوں کے بعد دوسرے رسول اس طرح بھیجے جس طرح ایک کی گردن کے پیچھے دوسرا اس کے نشانِ قدم پر چلتا ہوا آرہا ہو۔ سب کی تعلیم ایک تھی اور سب ایک ہی راستے کے مسافر تھے۔ وَ قَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ اٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ: عیسیٰ علیہ السلام کا الگ خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب سے آخر میں وہی تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں انجیل عطا فرمائی، جس میں تورات پر عمل کی تاکید تھی اور اس کے بعض سخت احکام میں نرمی کا اعلان تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ﴾ [ آل عمران : ۵۰ ] ’’اور تاکہ میں تمھارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں۔‘‘ البتہ وہ بھی اسی راستے پر چلنے والے تھے جس پر پہلے رسول چلتے تھے، جس میں جہاد کی تعلیم بھی تھی۔ وَ جَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً: ’’ رَاْفَةً ‘‘ وہ رحمت جو کسی سے تکلیف یا نقصان دور کرنے سے تعلق رکھتی ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ [ النور : ۲ ] ’’اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ جبکہ ’’ رَحْمَةً ‘‘ کا لفظ عام ہے، جس میں ہر طرح کا رحم شامل ہے، خصوصاً جس میں نفع پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ حج کی آیت (۶۵) : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾ کی تفسیر۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب انجیل عطا فرمائی تھی وہ بنیادی طور پر احکام کی نہیں بلکہ وعظ و تذکیر کی کتاب تھی، جس میں انھیں خاص طور پر نرمی اور رحم کے اخلاق اختیار کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس پر عمل کیا، پھر عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت پر عمل نے ان میں یہ صفت مزید پختہ کردی، چونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کے فضل سے ہوا، اس لیے فرمایا کہ ہم نے اس کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھ دی۔ انجیل میں رافت و رحمت پر زور دینے کی وجہ یہ تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے نفوس کی اصلاح کے لیے اور ان کے دلوں سے اس سختی کو دور کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا جو طویل مدتیں گزرنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں پیدا ہو چکی تھی، جیسا کہ فرمایا: ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً﴾ [ البقرۃ : ۷۴ ] ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں۔‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب یہود کے برعکس آپس میں نہایت نرم اور مہربان تھے، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں بھی یہ وصف بہت نمایاں تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ﴾ [ الفتح : ۲۹ ] ’’ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔‘‘ وَ رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوْهَا:’’رَهَبَ يَرْهَبُ رَهْبًا‘‘ (ف)ڈرنا۔ ’’رَاهِبٌ‘‘ ڈرنے والا۔ ’’ رَهْبَانٌ ‘‘ (بروزن فَعْلاَنٌ) بہت ڈرنے والا۔ ’’رَهْبَانِيَّةَ‘‘ اس ’’رَهْبَانٌ‘‘ کی طرف نسبت ہے، یعنی رہبان کا طریقہ اختیار کرنا، جو شدت خوف سے شادی نہیں کرتا کہ بیوی بچے اس کی عبادت میں رکاوٹ نہ بنیں، لوگوں سے علیحدگی اختیار کرتا ہے کہ اسے عبادت سے غافل نہ کریں۔ کھانے پینے کی لذیذ اشیاء سے اجتناب کرتا ہے کہ دنیا کی حرص اور نفس کی خواہشوں سے بچ سکے، اس لیے وہ آبادی سے الگ جنگل بیابان میں کٹیا بنا کر عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ انبیاء کا طریقہ نہیں، نہ انھوں نے اس کی تعلیم دی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ان کا طریقہ تو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دینا اور لوہے کے استعمال کے ساتھ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ سو جن لوگوں نے ترکِ دنیا کا راستہ اختیار کر کے دعوت و جہاد کا کام چھوڑ دیا، یہ طریقہ ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : (( لَمَّا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ الَّذِيْ كَانَ مِنْ تَرْكِ النِّسَاءِ بَعَثَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ! إِنِّيْ لَمْ أُوْمَرْ بِالرَّهْبَانِيَّةِ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِيْ ؟ قَالَ لاَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ إِنَّ مِنْ سُنَّتِيْ أَنْ أُصَلِّيَ وَأَنَامَ، وَأَصُوْمَ وَأَطْعَمَ، وَ أَنْكِحَ وَ أُطَلِّقَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ )) [سنن دارمي :2؍179، ح : ۲۱۶۹، قال المحقق حسین سلیم أسد الداراني إسنادہ صحیح و الحدیث متفق علیہ ] ’’جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے عورتوں کو ترک کرنے والا معاملہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا : ’’اے عثمان! مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا، کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی اختیار کر لی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’نہیں یا رسول اللہ!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے طریقے میں سے یہ ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا (بھی) ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا (بھی) ہوں اور میں نکاح بھی کرتاہوں، طلاق بھی دیتا ہوں تو جو شخص میرے طریقے سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انھیں (اس کے بارے) بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے : ’’کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو پہلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہیں۔‘‘ تو ان میں سے ایک نے کہا : ’’میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا : ’’میں عورتوں سے الگ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے فرمایا : (( أَنْتُمُ الَّذِيْنَ قُلْتُمْ كَذَا وَ كَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰهِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لٰكِنِّيْ أَصُوْمُ وَ أُفْطِرُ، وَ أُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ )) [بخاري، النکاح، باب الترغیب في النکاح ....: ۵۰۶۳ ] ’’تمھی لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور اس کے تقویٰ والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو میرے طریقے سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ: یعنی ہم نے انھیں رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ انھوں نے اسے خود ہی ایجاد کر لیا تھا۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ: یہ استثنا منقطع ہے اور’’ اِلَّا ‘‘ ’’لٰكِنْ‘‘ کے معنی میں ہے: ’’أَيْ مَا كَتَبْنَا هَا عَلَيْهِمْ لٰكِنْ فَعَلُوْهَا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ‘‘ ’’یعنی ہم نے انھیں اس کا حکم نہیں دیا، مگر انھوں نے (ترکِ دنیا کا) یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا۔‘‘ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے : ’’ لٰكِنْ كَتَبْنَا عَلَيْهِمُ ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ‘‘ یعنی ہم نے انھیں رہبانیت کا حکم تو نہیں دیا، لیکن ہم نے انھیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کا حکم دیا۔ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا: رہبانیت اختیار کرنے والوں کی دو طرح سے مذمت فرمائی، ایک یہ کہ انھوں نے دین میں وہ بات ایجاد کی جس کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے رہبانیت ایجاد کر کے اپنے آپ پر ترک دنیا کی جو پابندیاں عائد کی تھیں انھیں اس طرح نہ نبھا سکے جس طرح نبھانے کا حق تھا۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں : ’’یعنی انھوں نے دو جرم کیے، ایک رہبانیت (درویشی) کو دین کا جزو لاینفک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ انھوں نے ابتدا میں توحید اور درویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی، لیکن مسیح علیہ السلام کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے اور تثلیث کے چکر میں پھنس کر توحید کو چھوڑ دیا، پھر درویشی تو درکنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ و ریاست طلبی کا ذریعہ بنا لیا اور باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے لگے۔ الغرض جہاد کے فریضہ کو چھوڑ کر تصوف کی رسوم اختیار کرنا ہی رہبانیت ہے، جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو (اللہ کی رضا کے بجائے) جاہ و ریاست اور دنیا طلبی کا ذریعہ بنانا تو ناقابل عفو گناہ ہے، جو یہود و نصاریٰ میں عام وبا کی شکل اختیار کر گیا تھا۔‘‘ (اشرف الحواشی)شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں : ’’یہ فقیری اور تارکِ دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے، نہ بیوی رکھتے نہ اولاد، نہ کماتے نہ جوڑتے، محض عبادت میں رہتے، خلق سے نہ ملتے۔ اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا، مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا، پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔‘‘ (موضح) آج کل روزانہ اخبارات میں نصرانی چرچوں میں پادریوں اور راہبوں کے زنا اور قومِ لوط کے عمل کی خبریں اسی ’’ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ‘‘ کی عملی تفسیر ہیں۔ 8۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ ‘‘ کے مطابق امت مسلمہ میں بھی رہبانیت تصوف کی صورت میں رائج ہوگئی۔ [ دیکھیے بخاري : ۳۴۵۶ ] دنیا میں اسلام کو غالب کرنے اور جہاد کے بجائے ترکِ دنیا کمال ٹھہرا، تو توحید کے بجائے پیر پرستی اور قبر پرستی پھیل گئی۔ احسان کی منزل یہ تھی کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا اسے دیکھ رہا ہے، سو اگر یہ اسے نہیں دیکھتا تو وہ اسے یقیناً دیکھ رہا ہے۔ تصوف میں اس کے بجائے کمال یہ ٹھہرا کہ شیخ کا تصور اس طرح رکھو کہ ایک لمحہ بھی دل و دماغ اور آنکھوں سے جدا نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا جو نہ بتایا ہو، یہاں ان طریقوں کو چھوڑ کر نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ٹھہرے۔ مثلاً روزے رکھنے کے بجائے ترک حیوانات جمالی و جلالی کیا گیا، یعنی کوئی حیوان یا اس سے نکلنے والی چیز مثلاً گوشت یا دودھ یا گھی نہ کھایا جائے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور مسنون اذکار کے بجائے سانس بند کر کے خود ساختہ وظیفوں کو، جن کے ساتھ تصور شیخ کا شرک ہو، ولایت کے حصول کا مستند طریقہ قرار دیا گیا۔ محنت اور کمائی کے بجائے لوگوں کے نذرانوں یا گدائی کے ٹکڑوں پر گزر کرنا فقر کی منزل قرار پایا۔ قرآن کی دعوت کے ساتھ جہاد کی تلوار لے کر دنیا پر اسلام کو غالب کرنے کی جدو جہد کے بجائے جنگلوں بیابانوں یا مقبروں اور خانقاہوں میں ’’ ہُو حق ‘‘ کی ضربیں مقصد حیات قرار پائیں۔ مسجدیں ویران ہوئیں اور مقبرے آباد ہوئے اور یہ کام کرنے والوں کی پارسائی اور روحانی اقتدار کے اتنے جھوٹے قصے مشہور کیے گئے کہ نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کی ولایت کے افسانے ان کے مقابلے میں ہیچ ہوگئے۔ احبار و رہبان کے باطل طریقوں کے ساتھ لوگوں کے مال کھانے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا جو یہاں اختیار نہ کیا گیا ہو۔ جو لوگ دنیاوی مصروفیت کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکے انھوں نے بھی کتاب و سنت پر عمل کے بجائے ان خدا رسیدہ ہستیوں کی خدمت کو نجات کے لیے کافی سمجھا اور انھیں قیامت کے دن اپنا کار ساز سمجھ کر عمل سے فارغ ہوگئے۔ نتیجہ کفار کے غلبے اور مسلمانوں کی ذلت اور غلامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ اس کا علاج اب بھی وہی ہے جو اس مبارک سورت میں بتایا گیا ہے کہ رہبانیت کے بجائے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق بسر کی جائے، لوگوں کے بنائے ہوئے طریقوں کے بجائے کتاب و سنت سے ثابت اعمال کی پابندی کی جائے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور جان و مال کی قربانی سے کسی قسم کا دریغ نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس طرح تورات و انجیل کی تعلیم رہبانیت کے بجائے قتال فی سبیل اللہ تھی اسی طرح قرآن مجید کی تعلیم بھی یہی ہے، دلیل اس کی یہ آیت ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۱ ] ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے۔‘‘ فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ: ان میں دو قسم کے لوگ شامل ہیں، ایک وہ جو رہبانیت اور اس کے خود ساختہ عقائد و اعمال مثلاً تثلیث، قبر پرستی اور ترک دنیا کے بجائے صحیح ایمان و عمل پر قائم رہے، جو تورات و انجیل سے ثابت تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کا اجر عطا فرما دیا اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور آپ پر ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی ان کا اجر عطا فرما دیا۔ 10۔ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ : یعنی ان میں سے بہت سے لوگ وہ تھے جو اپنی خواہش کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔