مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ
وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس قالینوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے
مُتَّكِـِٕيْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ: ’’ رَفْرَفٍ ‘‘ اسم جنس یا اسم جمع ہے، مفرد اس کا ’’رَفْرَفَةٌ‘‘ ہے، منقش قالین جو بستر پر بچھایا جائے۔ ’’ عَبْقَرِيٍّ ‘‘ کوئی بھی چیز جو اپنی جنس میں سب سے فائق اور نادر الوجود ہو۔ اس کی نسبت ’’عَبْقَرٌ‘‘ کی طرف ہے جو جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کا شہر تھا، جسے اردو میں پرستان کہتے ہیں۔ عرب میں فوق العادت خوبصورت یا باکمال چیز کی نسبت اس کی طرف کر دیتے تھے، گویا یہ انسانوں کی سرزمین کی نہیں بلکہ جنوں اور پریوں کی سرزمین کی چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کنویں سے پانی کھینچنے والے خواب کے ذکر میں فرمایا : (( ثُمَّ أَخَذَهَا عُمَرُ، فَاسْتَحَالَتْ بِيَدِهِ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا فِي النَّاسِ يَفْرِيْ فَرِيَّهُ )) [بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۶۳۴ ] ’’پھر وہ ڈول عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے پکڑا تو وہ ایک بڑے ڈول کی شکل میں بدل گیا۔ تو میں نے کوئی نادر قوت والا شخص نہیں دیکھا جو اس جیسی کاٹ کاٹتا ہو۔ ‘‘ اس لیے اس کا ترجمہ شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ نے ’’نادر‘‘ کیا ہے اور ’’ حِسَانٍ ‘‘ کا ترجمہ ’’نفیس‘‘ کیا ہے۔ ’’ رَفْرَفٍ ‘‘ کا لفظ مفرد ہے، اس کے مطابق ’’ عَبْقَرِيٍّ ‘‘ صفت مفرد لائی گئی ہے اور اسم جنس یا اسم جمع ہونے کی وجہ سے اس میں جمع کا مفہوم پایا جاتا ہے، اس لیے اس کی صفات ’’ خُضْرٍ ‘‘ اور ’’ حِسَانٍ ‘‘ جمع لائی گئی ہیں۔