سورة آل عمران - آیت 200

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کوتھامے رکھو اور جہاد کی تیاری کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اصْبِرُوْا“ یعنی دین اسلام پر ثابت قدمی سے جمے رہو۔ ”صَابِرُوْا“ یہ باب مفاعلہ سے ہے جس میں مقابلہ کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی کافروں کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ ”وَ رَابِطُوْا“ یعنی دشمنوں سے جہاد کے مورچوں پر ڈٹے رہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے راستے میں ایک دن سرحدوں پر پہرا دینا دنیا اور دنیا میں جو کچھ موجود ہے، اس سب سے بہتر ہے۔‘‘ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ : ۲۸۹۲، عن سہل بن سعد رضی اللّٰہ عنہ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا پہرا دینا ایک مہینے کے قیام اور صیام سے بہترہے اور اگر اس حالت میں مجاہد فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا اور اس کے مطابق اس کا رزق بھی جاری رہے گا، نیز وہ آزمائش سے بھی محفوظ رہے گا۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللّٰہ عز وجل : ۱۹۱۳، عن سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ ] احادیث میں سختی اور تکلیف کے اوقات میں پوری طرح وضو کرنے، مسجد کی طرف چل کر آنے اور پھر ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’رِبَاطٌ ‘‘ فرمایا ہے۔ [ مسلم، الطہارۃ، باب فضل إسباغ الوضوء علی المکارہ : ۲۵۱ ] ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس مقام پر اللہ کی راہ میں مورچہ بند ہونے اور پہرا دینے کی بہت سی احادیث جمع فرمائی ہیں۔ [ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا ]