وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
تم جیسے بہت سے لوگوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا اَشْيَاعَكُمْ....: قیامت پر قادر ہونے کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قسم ہے کہ ہم نے تمھارے جیسی کئی جماعتوں مثلاً عاد و ثمود وغیرہ کو ہلاک کر ڈالا۔ وہ بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان پر عذاب آ سکتا ہے، مگر جب عذاب آیا تو اچانک آیا۔ ایسے ہی قیامت بھی اچانک آئے گی، تو کیا ہے کوئی جو اپنے جیسے ان گروہوں سے عبرت حاصل کرے اور قیامت کی تیاری کرے؟ یہاں پھر التفات ہے، یعنی مشرکین کو مخاطب فرما لیا ہے، کیونکہ مقصود ڈانٹنا ہے۔ ’’أَشْيَاعٌ‘‘ ’’شِيْعَةٌ‘‘ کی جمع ہے، ایک جیسا عقیدہ رکھنے والی جماعت کے لوگ جو ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوں۔ یہاں ’’ اَشْيَاعَكُمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بھی کفر و شرک میں تمھارے جیسے تھے۔