يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم ۖ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ان سے فرمائیں کہ مجھے اپنے اسلام کا احسان نہ جتاؤ بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہاری ایمان کی طرف راہنمائی کی اگر تم واقعی سچے ہو
1۔ يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا: اعراب یہ کہتے ہوئے کہ’’ اٰمَنَّا ‘‘ (ہم ایمان لے آئے) دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان جتلا رہے تھے۔ ان کے خیال میں یہ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان تھا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال رکھنا چاہیے تھا اور اس کے بدلے میں ان کے تقاضے اور فرمائشیں پوری کرنی چاہیے تھیں، جیسے چودھری اور سردار کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اس پر احسان رکھتے ہیں اور پارٹی کے سربراہ سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ 2۔ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت رکھو، کیونکہ کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو ہے، اگر نہیں ہوتا تو اس کا نقصان بھی اسی کو ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَيْهَا ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ:۴۶] ’’جس نے کوئی نیک عمل کیا تو وہ اس کے لیے ہے اور جس نے برائی کی تو وہ اسی پر ہے۔‘‘ تمھارے اسلام لانے یا نہ لانے سے میرا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ 3۔ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ: یہاں بظاہر یہ کہنا چاہیے تھا کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان مت رکھو، بلکہ میرا تم پر احسان ہے کہ میری وجہ سے تم اسلام لائے، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کی تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا احسان جتلاتا اور یاد کرواتا ہے کہ اس نے تمھیں ایمان لانے کی ہدایت دی، یعنی اس کی توفیق بخشی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگرچہ ہدایت دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ﴾ [ الشورٰی : ۵۲ ] ’’اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ مگر آپ صرف صراط مستقیم کی راہنمائی کر سکتے ہیں، وہ ہدایت جو صراطِ مستقیم پر چلنے کا نام ہے اس کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ﴾ [القصص: ۵۶]’’بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘ اور اگر اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایمان کی توفیق دی تو اس میں سراسر تمھارا فائدہ ہے، اللہ تعالیٰ کو تم کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، نہ نقصان پہنچا سکتے ہو۔ تم ہی کیا، اگر ساری مخلوق بھی جمع ہو جائے تو نہ اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے، پھر اس پر یا اس کے رسول پر احسان رکھنے کا کیا مطلب؟ 4۔ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ کا ایمان کی ہدایت دینے کا احسان بھی تم پر اسی صورت میں ہے اگر تم اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہو، ورنہ ابھی تک تمھارے دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔