وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم مشکلات میں مبتلا ہوجاؤ، مگر اللہ نے تم میں ایمان کی محبت پیدا کی اور اس کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا، اور کفر وفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا ایسے ہی لوگ
1۔ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ: ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے، اس کے باوجود فرمایا: ’’اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنفس نفیس موجود ہونے اور آپ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا ہے درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننا چاہیے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آوازیں دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کارروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو! تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ 2۔ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِلَعَنِتُّمْ: یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبنی ہے اس لیے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵] ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘ اور رسول کو بھی تمھارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں، فرمایا: ﴿ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ ﴾ [التوبۃ: ۱۲۸] ’’اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے۔‘‘ اس کے برعکس اگر رسول تمھاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑ جاؤ گے، کیونکہ اوّل تو تمھاری سب کی بات ایک نہیں ہو گی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا؟ پھر تمھارا علم ناقص ہے، نہ تمھیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمھیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہے ہو وہ انجام کے لحاظ سے کس قدر نقصان دہ ہے ۔ اس لیے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لیے چل رہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا: ﴿ وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ ﴾ [المؤمنون : ۷۱ ] ’’اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقیناً بگڑ جائیں۔‘‘ 3۔ ’’ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ‘‘ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمھارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ﴾ [آل عمران:۱۵۹] ’’سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ مگر یاد رکھو! تمھارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۹ ] ’’پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسا کر۔‘‘ 4۔ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ: ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمھاری اطاعت کرے تو یقیناً تم مشکل میں پڑ جاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے(تمھیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور) ایمان یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو تمھارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں ایسا مزین کر دیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہو گئے۔ اس لیے بعض اوقات بتقاضائے بشریت تم سے غلطی ہو جاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔ 5۔ وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ: یعنی کفر، فسوق اور عصیان کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا۔ رازی نے فرمایا: ’’ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔‘‘ شیخ عبد الرحمان السعدی نے فرمایا: ’’(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔‘‘ (واللہ اعلم) 6۔ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ: یعنی یہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔ ’’الف لام‘‘ بیانِ کمال کے لیے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخالف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کیے جو اس نے انھیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت دی۔