سورة محمد - آیت 18

فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

سو وہ لوگ قیامت کے علاوہ کسی بات کا انتظار نہیں کرتے کہ وہ ان پر اچانک آپڑے؟ اس کی نشانیاں تو آچکی ہیں۔ جب قیامت آئے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا موقع نہیں ہو گا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً: یعنی کون سی نصیحت اور کون سی وعید ہے جو انھیں نہیں سنائی گئی اور کون سی دلیل ہے جو ان کے سامنے پیش نہیں کی گئی، مگر وہ اتنے بدبخت ہیں کہ جب تک قیامت کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے گویا اسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے سامنے آ کھڑی ہو، نہ پہلے علم ہونے کی وجہ سے اس پر ایمان لا سکیں نہ اس کی تیاری کر سکیں۔ فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَا: یعنی جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے آنے میں دیر بھی کیا رہ گئی ہے، اس کی نشانیاں تو آ ہی چکی ہیں، اب اس کے آنے میں کیا شبہ باقی ہے؟ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ’’بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النّبیین کی راہ دیکھتے تھے، جب وہ آ چکے تو قیامت ہی آنی رہ گئی ہے۔‘‘ (موضح) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ )) [ بخاري، الرقاق، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ بعثت أنا والساعۃ کھاتین.... ‘‘ : ۶۵۰۵ ] ’’میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں ہیں۔‘‘ یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے بعد متصل آ رہی ہے۔ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے شقِ قمر کی نشانی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ظاہر ہو چکی تھی، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ﴾ [ القمر : ۱ ] ’’قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ ‘‘ آلوسی نے فرمایا : ’’ظاہر یہ ہے کہ ان نشانیوں سے وہی نشانیاں مراد ہیں جو اس آیت کے نزول کے وقت نمودار ہو چکی تھیں۔‘‘ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ: ’’ذِكْرٰىهُمْ‘‘ مبتدا ہے اور ’’فَاَنّٰى لَهُم‘‘اسم استفہام خبر مقدم ہے۔ ’’ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ‘‘(پھر جب وہ ان کے پاس آ گئی تو ان کے لیے ان کی نصیحت کیسے ممکن ہو گی)، ’’ اِذَا جَآءَتْهُمْ ‘‘ میں ’’جَاءَتْ‘‘ کا فاعل ’’السَّاعَةَ‘‘کی ضمیر ہے۔ (التسہیل) یعنی جب ان کے پاس قیامت آ گئی تو نصیحت قبول کرنے یا مان لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہی بات اس آیت میں بیان ہوئی ہے: ﴿ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَ اَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى﴾ [الفجر:۲۳] ’’اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا اور ( اس وقت) اس کے لیے نصیحت کہاں۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ سبا (۵۱، ۵۲) اور سورۂ مومن (۸۴، ۸۵)۔