ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اے نبی پھر ہم نے آپ کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ پر قائم کیا ہے۔ لہٰذا آپ اسی پر چلیں اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کریں جو علم نہیں رکھتے
1۔ ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ: ’’ شَرِيْعَةٍ ‘‘ کا معنی صاف راستہ اور واضح طریقہ ہے۔ ’’ الْاَمْرِ ‘‘ سے مراد ’’امرِ دین‘‘ ہے۔ یعنی بنی اسرائیل جب اپنی سرکشی، ضد اور عناد کی وجہ سے دین کے واضح احکام پر قائم نہ رہے بلکہ بہت سے گمراہ فرقوں میں بٹ گئے اور واضح اور صحیح دین کی دعوت دینے والوں سے عداوت اور گمراہی میں اس حد تک بڑھ گئے کہ انھوں نے مسیح علیہ السلام جیسے برگزیدہ پیغمبر کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہ کیا، بلکہ اپنے گمان میں انھیں صلیب پر چڑھا کر دم لیا۔ جب وہ سرکشی کی اس حد تک آ پہنچے تو اس فضیلت سے محروم کر دیے گئے جو انھیں دنیا کی امامت کی صورت میں حاصل تھی۔ پھر اے محمد! ہم نے تجھے اس امر (یعنی دین) کے واضح راستے اور طریقے پر لگا دیا اور وہ خدمت جو پہلے پیغمبروں کے سپرد تھی وہ آپ کے سپرد کر دی۔ 2۔ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ: اس لیے آپ ہمارے مقرر کر دہ طریقے پر چلیں اور ہمارے نازل کردہ احکام کی پیروی کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو نہیں جانتے، یعنی وحی الٰہی کا علم نہیں رکھتے، یا علم کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے، کیونکہ وہ بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں جو نہیں جانتے۔ ان سے مراد اہلِ کتاب اور مشرکینِ عرب ہیں۔ صرف اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کی تاکید اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۴۸ تا ۵۰) اور سورۂ اعراف (۳)۔