سورة الدخان - آیت 36

فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو اٹھا کر لاؤ

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاْتُوْا بِاٰبَآىِٕنَا اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ: یعنی ہم نے آج تک کسی فوت شدہ کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا، اگر تمھارا دعویٰ ہے کہ دوسری زندگی ہے تو ہمارے آبا و اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ، اگر تم سچے ہو، ورنہ ہم تمھیں جھوٹا سمجھیں گے۔ وہ اپنی اس دلیل کو بہت مضبوط سمجھتے تھے! حالانکہ یہ کئی وجہوں سے بالکل فضول ہے، کیونکہ انھیں یہ کس نے کہا کہ وہ اسی دنیا میں آئے گی؟ وہ تو ایک نئی دنیا ہو گی جس میں تمام مردے بیک وقت اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر انھیں یہ کس نے کہا ہے کہ مردوں کا زندہ کرنا پیغمبر کے اختیار میں ہے؟ اس کا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے، مردے زندہ کرنا یا معجزوں کے مطالبے پورے کرنا نہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، وہ اسی وقت آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اب قیامت سے پہلے قیامت کا مطالبہ کون سی دانش مندی ہے؟ اگر کسی کو آئندہ ہونے والے کسی کام کی اطلاع دی جائے تو کیا یہ کہہ کر اسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ یہ کام فوراً کرکے دکھاؤ، اگر ابھی نہیں ہوتا توکبھی بھی نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے یہ نہایت بے عقلی کی بات ہے۔