سورة الدخان - آیت 18

أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اس نے کہا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَنْ اَدُّوْا اِلَيَّ عِبَادَ اللّٰهِ ....: یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ موسیٰ علیہ السلام کے جو اقوال یہاں نقل ہوئے ہیں وہ ایک وقت کے نہیں بلکہ کئی سالوں میں مختلف مواقع پر انھوں نے فرعون اور اس کے درباریوں سے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے۔ اَنْ اَدُّوْا اِلَيَّ عِبَادَ اللّٰهِ: اس جملے کی تفسیر دو طرح سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ ’’ عِبَادَ اللّٰهِ ‘‘ کا لفظ ’’ اَدُّوْا اِلَيَّ ‘‘ کا مفعول بہ ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو۔ ’’ عِبَادَ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کے بندوں) سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جنھیں فرعون نے غلام بنا رکھا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو اسلام کی دعوت کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلانا بھی تھا۔ اس تفسیر کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے: ﴿ فَاْتِيٰهُ فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْ ﴾ [ طٰہٰ : ۴۷ ] ’’تو اس کے پاس جاؤ اور کہو بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے۔‘‘ یہاں بنی اسرائیل کو ’’ عِبَادَ اللّٰهِ ‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور غلام ہیں، تمھیں کوئی حق نہیں کہ انھیں غلام بنا کر رکھو۔ یہی بات جنگ قادسیہ کے موقع پر ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایرانیوں کے سردار رستم سے کہی تھی، جب اس نے ان سے پوچھا : (( مَا جَاءَ بِكُمْ؟ ))’’تمھیں کیا چیز لے کر آئی ہے؟‘‘ تو انھوں نے جواب میں جو تقریر کی اس کے چند جملے یہ ہیں : (( اَللّٰهُ ابْتَعَثَنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلٰی عِبَادَةِ اللّٰهِ وَ مِنْ ضِيْقِ الدُّنْيَا إِلٰی سَعَتِهَا وَمِنْ جَوْرِ الْأَدْيَانِ إِلٰی عَدْلِ الْإِسْلَامِ )) [ البدایۃ والنہایۃ :7؍47، سن ۱۴ ہجري کے واقعات ] ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ ہم جسے وہ چاہے اسے بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے نکال کر اس کی وسعت کی طرف اور تمام دینوں کے ظلم و جور سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف لے آئیں۔‘‘ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ عِبَادَ اللّٰهِ ‘‘ سے پہلے حرفِ ندا ’’يَا‘‘ محذوف ہے اور وہ منادیٰ مضاف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ’’ اَدُّوْا اِلَيَّ ‘‘ کا مفعول محذوف ہے : ’’ أَيْ أَدُّوْا إِلَيَّ مَا وَجَبَ عَلَيْكُمْ يَا عِبَادَ اللّٰهِ! ‘‘ ’’یعنی اے اللہ کے بندو! جو حقوق تم پر واجب ہیں وہ مجھے ادا کرو۔‘‘ یعنی مجھ پر ایمان لاؤ اور میری اطاعت کرو۔ اس تفسیر کے مطابق ’’ عِبَادَ اللّٰهِ ‘‘ سے مراد قبطی ہیں۔ یہ تفسیر بھی درست ہے، بعد کا جملہ ’’ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ‘‘ اس تفسیر سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ حرف ندا کا حذف کلامِ عرب میں عام ہے، جیسا کہ عزیزِ مصر نے کہا تھا: ﴿ يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا ﴾ [ یوسف : ۲۹ ] ’’ أَيْ يَا يُوْسُفُ! أَعْرِضْ عَنْ هٰذَا ‘‘ یعنی اے یوسف! اس معاملے سے درگزر کر۔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ: یہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی میرے حقوق جو تم پر واجب ہیں ادا کرو، کیونکہ میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں، تمھیں اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پہنچاتا ہوں۔ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب موسیٰ علیہ السلام نے شروع میں اپنی دعوت پیش فرمائی۔